
دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میں رکشہ چلاتا ہوں اسکول کے بچے لگائے ہوئے ہیں ان سے ہم فیس ایڈوانس میں پہلے لیتے ہیں وہ لینا چاہئے یا نہیں؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں آپ کا ایڈوانس فیس وصول کرنا، جائز ہے کیونکہ آپ کو رکشے کے کرایہ کی مد میں ملنے والی رقم آپ کی اُجرت ہے اور کرایہ یا اُجرت پیشگی(Advance) بھی وصول کی جاسکتی ہے، لہٰذا فریقین پیشگی اُجرت پر راضی ہیں تو کوئی حرج نہیں۔
فقہِ حنفی کی مشہور کتاب ہدایہ میں ہے:
”الاجرۃ لا تجب بالعقد و تستحق باحدی معانی ثلٰثۃ اما بشرط التعجیل او بالتعجیل من غیر شرط او باستیفاء المعقود علیہ“
ترجمہ: اُجرت محض عقد سے واجب نہیں ہوتی بلکہ تین چیزوں میں سے کوئی ایک پائی جائے تو اُجرت کا مستحق ہوگا، یا تو پیشگی دینے کی شرط لگائی ہو یا بغیر شرط ہی پیشگی اُجرت دے دی یا پھر کام پورا ہوگیا۔ (ہدایہ آخرین، ص 297،مطبوعہ لاہور)
بہارِ شریعت میں ہے: ”اُجرت ملک میں آنے کی چند صورتیں ہیں: (1) اُس نے پہلے ہی سے عقد کرتے ہی اُجرت دیدی دوسرا اس کا مالک ہوگیا یعنی واپس لینے کا اُس کو حق نہیں ہے (2) یا پیشگی لینا شرط کرلیا ہواب اُجرت کا مطالبہ پہلے ہی سے درست ہے (3) یامنفعت کو حاصل کرلیا مثلاً مکان تھا اُس میں مدتِ مقررہ تک رہ لیا یا کپڑا درزی کو سینے کے لیے دیا تھا اُس نے سی دیا (4)وہ چیز مستاجر کو سپرد کردی کہ اگر وہ منفعت حاصل کرنا چاہے کرسکتا ہے نہ کرے یہ اُس کا فعل ہے مثلاً مکان پر قبضہ دے دیا یا اجیر نے اپنے نفس کو تسلیم کردیا کہ میں حاضر ہوں کام کے لیے تیار ہوں کام نہ لیا جائے جب بھی اُجرت کامستحق ہے۔“(بہارِ شریعت،ج3،ص110)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب: مفتی علی اصغرصاحب مدظلہ العالی
تاریخ اجراء: ماہنامہ فیضان مدینہ ربیع الثانی1441ھ