
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ کاروبار کے دوران چیز بیچتے ہوئے یہ بولنا کیسا ہے کہ یہ میری خرید بھی نہیں حالانکہ اس کی خرید اس سے سَستی ہوتی ہے تو اس طرح چیز بیچنا جائز ہے یا ناجائز؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
یہ عمل جھوٹ پر مشتمل اور ناجائز ہے۔ اس طرح کی گئی تجارت میں اگر دھوکا نہیں پایا گیا مثلاً قیمتِ خرید میں جھوٹ تو بولا لیکن جو اس چیز کا مارکیٹ ریٹ ہے اسی ریٹ پر دیا ہےاور بیعِ مرابَحَہ بھی نہیں ہے تو خرید و فروخت جائز ہے اور آمدنی بھی حلال ہوگی البتہ جھوٹ بولنے کا قبیح عمل پایا گیا۔ لیکن اگر دھوکا بھی پایا گیا جیسے یہ کہا کہ یہ چیز توہزار روپے کی ہے حالانکہ اس کی مارکیٹ ویلیو پانچ سو روپے کی ہو تو یہاں جھوٹ بھی ہے اور دھوکا بھی، اور دھوکے میں حقوقُ العباد کا معاملہ بھی آجائے گا اور آمدنی پر بھی اس کا اثر پڑے گا۔
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری
تاریخ اجراء: ماہنامہ فیضان مدینہ رجب المرجب 1440ھ