
Loan apps کے ذریعے قرض لینا کیسا ؟
سوال: کیافرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ آج کل کچھ اس طرح کی موبائل ایپلی کیشنز آئی ہوئی ہیں جن کے ذریعے کوئی بھی آسانی سے قرض حاصل کر لیتا ہے ۔ طریقہ یہ ہوتا ہے کہ موبائل ایپ ڈاؤن لوڈ کر کے اپنی پرسنل انفارمیشن جمع کروا کے اکاؤنٹ بنایا جاتا ہے اور پھر قرض کی درخواست دے دی جاتی ہے۔ عموما پہلی مرتبہ کم مقدار میں قرض ملتا ہے ، پھر اگر بروقت واپس ادا کر دیا جائے تو دوسری بار زیادہ مقدار میں قرض ملتا ہے۔ قرض کی رقم آپ کے کسی اکاؤنٹ مثلا بینک اکاؤنٹ یا جاز کیش اکاؤنٹ وغیرہ میں آجاتی ہے اور اسی طرح آن لائن رقم بھیجنے کے ذرائع استعمال کر کے آپ وہ رقم واپس بھیج سکتے ہیں۔ قرض کے طور پر جتنی رقم دی جاتی ہے واپسی میں ا س سے کچھ نہ کچھ زیادہ رقم دینی ہوتی ہے۔ بعض ایپلی کیشنز قرض پر اضافی رقم الگ سے لیتی ہیں اور سروس چارجز کے نام پر رقم الگ لیتی ہیں۔ مثلا آپ نے بارہ ہزار قرض کی درخواست کی ہے تو آپ کے اکاؤنٹ میں 9 ہزار آئیں گے۔ یعنی 5 سو روپے سروس چارجز کے اور پچیس سو (2500) روپےقرض پر جو اضافہ لینا ہے وہ پہلے ہی کاٹ لئے جائیں گے اور اب رقم واپس کرنی ہے تو پورے 12 ہزار واپس کرنے ہیں۔ اس تفصیل کے مطابق سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کی ایپلی کیشنز کے ذریعے قرض لینا جائز ہے یا نہیں؟
سوال: میں صاحبِ نصاب ہوں ، میں نے گزشتہ کچھ سالوں میں اس طرح زکوٰۃ ادا کی کہ کرونا کے موقع پر زکوٰۃ کی مد میں کافی رقم دی، پھر سیلاب کا واقعہ ہوا ، تو اس وقت بھی زکوٰۃ کی مد میں کافی رقم دی ، پھر ترکی میں ہونے والے زلزلے کے موقع پر بھی زکوٰۃ کی مد میں کافی ساری رقم جمع کروائی ۔ اب میں نے حساب لگایا ہے ، تو وہ ٹوٹل رقم میرے آئندہ تقریباً تین سال کی زکوٰۃ کے لیے کافی ہو چکی ہے یعنی میرے پاس 2026ء تک اندازاً جتنا مالِ زکوٰۃ رہے گا ، اس کی اندازاً جتنی زکوٰۃ بنتی ہے ، اتنی رقم میں زکوٰۃ کی مد میں دے چکا ہوں ۔میری رہنمائی فرمائیں کہ کیا میں زکوٰۃ کی نیت سے دی ہوئی اس اضافی رقم کو اگلے تین سال کی زکوٰۃ میں شمار کر سکتا ہوں ؟ میرا غالب گمان یہی ہے کہ میرے پاس 2026ء تک یہ سب قابلِ زکوٰۃ مال موجود رہے گا ۔
ادھار بیع میں اقالہ ہوا تو خریدار پر قیمت دینا لازم ہے؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان ِ شرع متین اس مسئلے میں کہ میں نے کبوتر ادھار خریدا، جس سے خریدا وہ اب کہہ رہا ہے کہ یہ کبوتر بیمار ہے مجھے واپس کردو تاکہ میں نے جس سےلیا ہے اس کو واپس کردوں، میں نے اس کو کبوتر واپس کردیا، تو کیا اب مجھے اس کے پیسے دینے پڑیں گے؟
جواب: ادھار کسی صورت جائز نہیں اگرچہ کہ برابر برابر ہو۔ واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم...
مرحوم کا قرض اتار نے سے متعلق تفصیلی فتویٰ
سوال: کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کےبارے میں کہ والد کے انتقال کے بعد قرض کی ادائیگی کیسے کریں، جبکہ یہ معلوم ہو کہ والد نے قرض لیا ہے اور رقم بھی معلوم ہے،مگر قرض خواہوں کا علم نہ ہو؟ نامعلوم شخص کے قرض کا حکم یہ ہوتا ہے کہ بعد تتبع و تلاش بنیتِ ثواب صدقہ کردیا جائے،مگر میت کا ترکہ تو ورثاکا حق ہے، اِس میں یہ صورت اختیار کی جاسکتی ہے یا نہیں؟نیز قبل از ادائے قرض وراثت کیسے تقسیم کریں؟
پرائز بانڈ کی فوٹو کاپیوں کی خریدوفروخت کرنا کیسا؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ پرائز بانڈکی خریداری، اس پر درج قیمت کے علاوہ مزید اضافی رقم کے ساتھ کی جاتی ہے ۔جس کو عرف میں Onپر خریدنا، بیچنا بھی کہا جاتا ہے ۔پرائز بانڈ مارکیٹ میں ایک طریقہ یہ بھی رائج ہوتا جارہا ہے، کہ انعامی بانڈزکی سیریز کی خرید وفروخت یوں کرتے ہیں کہ مثلاًاس سیریز654301 کی پوری سیریز سو بانڈز پر مشتمل خریدلیتے ہیں، اس طرح کہ اس سیریز کے پہلے بانڈ کی فوٹو کاپی بیچتے ہیں اوربیچنے والاحکومت کی طرف سے جاری کردہ پرائزبانڈاپنے ہی پاس رکھتاہےاورخریدارکوفقط فوٹو کاپیاں دیتاہےاوراس کے بدلے ہر پرائز بانڈ پرجومخصوص رقم لی جاتی ہے وہ وصول کرلیتاہے اوراس طرح جس کے پاس مثال کے طورپرساڑھے سات ہزاروالے 100پرائزبانڈزحاصل کرنے کے لئےان کی قیمت7,50,000(ساڑھے سات لاکھ)روپے نہ بھی ہوں وہ شخص بھی بس اضافی چارجزجیسے 2500 روپےدے کران کی 100فوٹوکاپیاں حاصل کرسکتاہے،پھرجب تک تاریخ نہ آجائے وہ بیچنے والاان سیریز کے پرائزبانڈزکی فوٹوکاپیاں کسی اورکو نہیں دے سکتا۔اگر مخصوص تاریخ پران پرائزبانڈزکی فوٹوکاپیوں کےنمبرزمیں سے کسی پرانعام نکل گیاتواس خریدار کوپوراانعام مل جاتاہےاور اگرانعام نہیں نکلاتووہ فوٹوکاپیاں ضائع قرارپاتی ہیں اوردیئےگئے اضافی چارجزکامالک پرائزبانڈکی فوٹوکاپیاں بیچنے والا ہی قرار پاتا ہے ۔ میراسوال یہ ہے کہ پرائزبانڈزکی فوٹوکاپیوں کی خریدوفروخت جائزہے یانہیں؟ سائل:شجاع عطاری(3/A-5،نارتھ کراچی)
کافر کمپنی سے انشورنس کروانے کی ایک ناجائز صورت ؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں ایک لائف انشورنس لینا چاہتا ہوں۔ میری صورت حال یہ ہے کہ میری عمر 60سال ہے اور میں نے مورگیج پر گھر لیا ہوا ہے ، جس کا میں نےتقریباً 2 لاکھ50ہزارپاؤنڈ دینا ہے اور میں فی الحال اتنا قرض ادا نہیں کر سکتا اور نہ ہی میرے مرنے کے بعد میری بیوی ادا کر سکے گی اور اگر یوں ہی میں فوت ہوگیا ، تو بینک والے میرا گھرفروخت کر دیں گے ، ہاں اگر ان کے قرض سے زیادہ کا گھر بکتا ہےتو اضافی رقم وہ ہمیں واپس کر دیں گے یا ہمیں خود وہ گھر بیچ کر رقم ادا کرنا ہوگی۔ بہر حال دونوں صورتوں میں میرے بعد میرے گھر والے اس گھر میں نہیں رہ سکیں گے اور اگر اس مورگیج پر میں لائف انشورنس کروا لوں تو بچت ہو سکتی ہے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ یہ انشورنس غیر مسلم کمپنی سے ہوگی اور ان کی پالیسی پلان15 سال کا ہے یعنی 15 سال کی پالیسی لینے میں مجھے ہر ماہ 100 پاؤنڈ جمع کروانے ہوں گے یعنی 15 سالوں کے 18 ہزار پاؤنڈ۔ پھر اگر میں 15 سالوں میں فوت ہوگیا تو کمپنی میرے مورگیج کی ساری رقم بینک کو ادا کرے گی اور اگر میں اتنے عرصے میں فوت نہ ہوا تو یہ انشورنس کمپنی مجھے کچھ بھی نہیں دے گی۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ میں اس کے بعد پھر اگلے 15 سال کی پالیسی دوبارہ لے لوں ۔اور یوں ہر 15 سال کے بعد پالیسی لے سکتا ہوں۔اس ساری صورت حال کے پیش نظر آپ مجھے یہ بتائیں کہ کیا میں یہ پالیسی لے سکتا ہوں یا نہیں ؟
انشورنس کی رقم کی وراثت کا حکم
سوال: میرے والد صاحب نے لائف انشورنس کروائی ہوئی تھی اور اسے میرے نام کلیم کروایا تھا۔تقریباً ڈیرھ ماہ قبل والد صاحب کا قضائے الٰہی سے انتقال ہوچکا ہے۔معلوم یہ کرنا ہے کہ ان کی انشورنس کی رقم کی حقدار صرف میں ہوں یا تمام ورثاء حقدار ہیں؟
صاحبِ نصاب بیوہ کی زکوٰۃ کی رقم سے مدد کرنا کیسا؟
سوال: ایک بیوہ عورت ہے اسکا کوئی کمانے والا نہیں ہے اور نہ ہی اس کے بیٹا ہے، اس کے پاس اپنا ذاتی مکان بھی نہیں ہے۔ البتہ اس بیوہ کی ملکیت میں ڈھائی تولہ سونا موجود ہے جو کہ اس کی حاجت اور قرض سے زائد ہے، اس کے علاوہ اس کے پاس چاندی یا کوئی رقم وغیرہ نہیں ہے کہ جس سے وہ اپنی ضروریات پوری کرسکے۔ مفتی صاحب آپ سے دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس صورت میں کیا زکوٰۃ کی رقم سے اس بیوہ کی مدد کی جاسکتی ہے؟؟ رہنمائی فرمادیں۔
ڈیجیٹل پرائز بانڈ خریدنا کیسا؟
سوال: سنٹرل ڈائریکٹوریٹ آف نیشنل سیونگز Central Directorate of National Savings (CDNS) نے ایک نئی ڈیجیٹل سرمایہ کاری پروڈکٹ متعارف کروائی ہے ، جس کو ڈیجیٹل پرائز بانڈ(DPB) کہا جاتا ہے۔ اس کے SOPs میں جو اس کی خریداری اور دیگر معاملات کا طریقہ درج ہے ،وہ یہ ہے کہ اولاً ایک ڈیجیٹل سیونگ اکاؤنٹ کھلوایا جائے گا ، اس اکاؤنٹ کے ذریعہ ڈیجیٹل پرائز بانڈ کی خریداری ہوگی ۔ پہلے سے موجود سیونگ اکاؤنٹ کے ذریعہ بھی خریداری کر سکتے ہیں ۔ ان دو اکاؤنٹ ہولڈرز کے علاوہ کوئی اور ڈیجیٹل پرائز بانڈز ( DPB ) نہیں خرید سکتا ۔ کم از کم خریداری 500 روپے کی ہوگی ، زیادہ کی کوئی حد نہیں ۔ خریداری کے بعد خریدار کو کوئی Physical instrument (خارجی وجود رکھنے والی چیزمثلا:پرچی وغیرہ) نہیں دی جائے گی ، بلکہ ایک نمبر اس کے نام پر رجسٹر کردیا جائے گا ، جس کی تفصیل متعلقہ موبائل ایپ(CDNS) پر دستیاب ہوگی اور پھر یہی نمبر قرعہ اندازی میں شامل کیا جائےگا ، انعام نکلنے کی صورت میں انعام اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کردیا جائے گا اور سیونگ اکاؤنٹ ہونے کی بنا پر ( DPB ) ہولڈر کو ہر ماہ نفع بھی ملتا رہے گا ۔ جس نے ڈیجیٹل پرائز بانڈز ( DPB ) خریدا ہے، وہ کسی کو یہ بانڈز بیچ نہیں سکتا ، نہ ہی ویسے کسی کو دے سکتا ہے ،الغرض جب تک وہ حیات ہے ، تب تک کسی طریقہ سے اس میں انتقال ملکیت کی صورت بن سکتی ہے اور نہ ہی کسی کو ضمانت کے طور پر رکھوا سکتا ہے ۔ جس کے نام پر یہ رجسٹرڈ ہیں،اس کے نام پر ہی رہیں گے،ہاں البتہ اگر (DPB) ہولڈر Withdraw ہونا چاہے،توجس اکاؤنٹ کے ذریعہ جہاں سے خریداری کی ہے ، وہاں (DPB) واپس کروا دے ، اس کو اپنی رقم واپس مل جائے گی ۔ اس مکمل تفصیل کے مطابق سوال یہ ہے کہ کیا ڈیجیٹل پرائز بانڈز ( DPB ) کی خریداری جائز ہے ؟