ساڑھے سات تولے سے کم سونے پر زکوٰۃ کا حکم

ساڑھے سات تولے سے کم سونا ہو، تو زکوٰۃ لازم ہوگی یا نہیں؟

مجیب:مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر:FAM-692

تاریخ اجراء:19 رمضان المبارک 1446 ھ/20 مارچ 2025 ء

دار الافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں  کہ ایک شادی شدہ اسلامی بہن کے پاس تقریباً سات (7) تولہ سونا ہے، ان کے گھر میں خرچ وغیرہ کے لئے عام طور پر  عورتوں کو رقم نہیں دی جاتی ہے، بلکہ ضرورت کی چیزیں مرد حضرات  خود ہی  خرید کر دے دیتے ہیں، اس  کے علاوہ کبھی والدین سے کچھ رقم  اگر تحفے کے طور پر مل بھی  جاتی ہے، یا کبھی بچوں کو ٹیوشن پڑھا کر کچھ پیسے آتے ہیں  تو وہ  بھی خرچ ہوجاتے ہیں، یعنی کچھ رقم پورا سال اُن کے پاس رہے، عام طور پر ایسا نہیں ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں کیا اس اسلامی بہن پر زکوٰۃ فرض ہو گی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

   اگر سونا ساڑھے سات تولہ سے کم ہولیکن سونے کے ساتھ حاجتِ اصلیہ اور قرض  سے زائد اموال زکوۃ میں سے کوئی مال جیسےچاندی، مالِ تجارت، پرائز بانڈ، حاجت سے زائد کچھ بھی رقم اگرچہ سو پچاس روپے  ہوں، توزکوٰۃ کیلئے نصاب  میں ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت  کا اعتبار ہوگا اور اس کے اعتبار سے زکوۃ فرض ہوگی۔ پھر  زکوۃ  کے واجب ہونے میں سال کے شروع اور آخر میں نصاب کا مکمل ہونا ضروری ہوتا ہے، درمیان سال میں اگر نصاب کم بھی ہوجائے تو اس کا اعتبار نہیں ہوتا، لہذا اگر  سال کے شروع اور آخر میں نصاب  پایا جائے  اور درمیان میں نہ ہو تو بھی زکوۃ فرض ہوگی  بشرطیکہ کچھ نا کچھ مال موجود  ہو۔

   لہٰذا صورت مسئولہ میں  پہلی بار   جب ان  خاتون کے پاس سات تولہ سونا کے علاوہ حاجت سے زائد کچھ  بھی رقم آئے گی تو  ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے اعتبار سے  وہ  صاحب نصاب ہوجائیں گی  اور ان کی  زکوۃ کا سال شروع ہوجائے گا۔ اب اگر  درمیان سال میں  کچھ یا سب رقم بھی  استعمال ہوجائے لیکن قمری یعنی اسلامی  سال پورا ہونے سے پہلے اگرچہ ایک منٹ ہی   پہلے دوبارہ سے ان کے پاس   حاجت سے زائد کچھ   رقم آجائے تو  ظاہر ہے کہ کچھ  بھی  رقم کے  آنے سے دوبارہ نصاب یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت بلکہ اس سے کہیں زائد  پائی جائے گی، تو بہرحال  زکوۃ فرض ہوگی اور اس پر سال گزرنا کہلائے گا، ہاں اگر سال کے آخر میں   کچھ بھی  رقم حاجت سے زائد ملکیت میں موجود نہ ہو، یا کوئی بھی دوسرا مالِ زکوۃ جیسے چاندی، پرائز بانڈ، مال تجارت حاجت اصلیہ   سے زائد  نہ آئے    بلکہ صرف اور صرف   سات تولے سونا ہی ہو تو نصاب کے نہ ہونے کے سبب  زکوۃ فرض نہیں ہوگی اور   اب جب دوبارہ نصاب پایا جائے گا تو سال شروع ہوگا۔

   سونا اگر ساڑھے سات تولہ سے کم ہو اور ساتھ کچھ رقم حاجت سے زائد ہو تو  نصاب میں ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کا اعتبار ہوگا، چنانچہ تبیین الحقائق میں ہے: ”تضم قیمۃ العروض الی الذھب و الفضۃ و یضم الذھب الی الفضۃ بالقیمۃ فیکمل بہ النصاب لان الکل من جنس  واحد“ ترجمہ: سامان کی قیمت کو سونے چاندی کی قیمت کے ساتھ ملایا جائے گا اور سونے کو قیمت کے اعتبار سے چاندی کے ساتھ ملایا جائے گا تاکہ نصاب مکمل ہو جائے ، کیونکہ یہ سب ایک ہی جنس سے ہیں۔(تبیین الحقائق، جلد 1، صفحہ 281، مطبوعہ ملتان)

   مفتئ اعظم پاکستان حضرت علامہ مفتی وقار الدین قادری علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں :”سونے کی مقدار ساڑھے سات تولے اور چاندی کی مقدار ساڑھے باون تولے ہے۔ جس کے پاس صرف سونا ہے، روپیہ  پیسہ، چاندی  اور مالِ تجارت بالکل نہیں، اس پر سوا سات تولے تک سونے میں زکوٰۃ فرض نہیں  ہے،  جب پورے ساڑھے سات تولہ ہو گا، تو زکوٰۃ فرض ہو گی، اسی طرح جس کے پاس صرف چاندی ہے،  سونا، روپیہ پیسہ  اور مالِ تجارت بالکل نہیں ہے، اس پر باون تولے چاندی میں بھی زکوٰۃ فرض نہیں ہے، جب ساڑھے باون تولہ  پوری ہو یا اس سے زائد ہو، تو زکوٰۃ فرض ہوگی۔ لیکن اگر چاندی اورسونا دونوں یا سونے کے ساتھ روپیہ  پیسہ، مالِ تجارت  بھی ہے، اسی طرح صرف چاندی کے ساتھ روپیہ پیسہ  اور مالِ تجارت بھی ہے، تو وزن کا اعتبار نہ ہو گا، اب قیمت کا اعتبار ہو گا، لہٰذا سونا چاندی ، نقد روپیہ اور مالِ تجارت  سب کو ملا کر، اگر ان کی قیمت  ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہو جائے، تو اس پر زکوٰۃ فرض ہے۔“ (وقار الفتاوی، جلد 2، صفحہ 384 تا 385، مطبوعہ بزم وقار الدین)

   سال کے شروع اور آخر میں نصاب کے کامل ہونے کا اعتبار ہے، درمیان کا اعتبار نہیں، چنانچہ ہدایہ میں ہے: ’’و إذا كان النصاب كاملا في طرفي الحول فنقصانه فيما بين ذلك لا يسقط الزكاة  لأنه يشق اعتبار الكمال في أثنائه أما لا بد منه في ابتدائه للانعقاد و تحقق الغنى و في انتهائه للوجوب و لا كذلك فيما بين ذلك لأنه حالة البقاء بخلاف ما لو هلك الكل حيث يبطل حكم الحول ولا تجب الزكاة لانعدام النصاب في الجملة‘‘ ترجمہ: اور اگر سال کے آغاز اور اختتام پر نصاب مکمل ہو، تو درمیان میں اس کا کم ہونا زکوٰۃ کو ساقط نہیں کرے گاکیونکہ پورے سال میں ہر وقت نصاب کا مکمل ہونا مشقت کا باعث ہے۔ بہرحال سال کے آغاز میں  زکوۃ کے منعقد ہونے کیلئے اور مالک نصاب  ہونے کے لئے ضروری ہےاور  سال کے اختتام پر  زکوۃ کے واجب ہونے کیلئے نصاب کا ہوناضروری ہے اور درمیان میں ایسا کچھ نہیں کیونکہ وہ باقی رہنے کی حالت ہے، برخلاف اس کے کہ اگر تمام مال ہلاک ہو جائے تو سال کاحکم  ختم ہو جاتا ہے، اور نصاب کے مکمل طور پر ختم ہو نے کے باعث   زکوٰۃ واجب نہیں رہتی۔ (الھدایہ، جلد 2، صفحہ 267، دار الفكر، بيروت)

   زکوۃ کے فتاوی پر مشتمل کتاب بنام ’’فتاوی اہلسنت احکام زکوۃ‘‘ میں ہے: ’’زکوۃ کی ادائیگی میں تکمیل نصاب کے حوالے سے سال کے اول و آخر کا اعتبار ہے درمیان کا نہیں یعنی ابتدائے سال نصاب موجود تھا مگر دوران سال نصاب کم ہو گیا لیکن اختتام سال پر پھر نصاب پورا ہو گیا تو بھی زکوۃ واجب ہوگی جبکہ درمیان سال بھی کچھ نہ کچھ مال موجود رہا ہو۔ ہاں اگر درمیان سال سارے کا سارا مال ختم ہو گیا ایک روپیہ بھی نہ بچا تو اب وہ سال کا حساب ختم ہو جائے گا اور جب دوبارہ صاحب نصاب ہوگا تب سے سال کا آغاز ہوگا۔‘‘ (فتاوی اھلسنت احکام زکوۃ، صفحہ 146، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم