فصل کا عشر ایڈوانس میں دینا

کیا فصل کا عشر ایڈوانس میں دیا جاسکتا ہے ؟

دارالافتاء اہلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ کیا فصل کا عشر پیشگی ( ایڈوانس میں ) دیا جاسکتا ہے؟      سائل: (محمد ظریف، ڈیرہ اسماعیل خان)

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

اپنی فصل کا عشر پیشگی ( ایڈوانس میں ) دینے کی چند صورتیں ہیں، جن میں سے کچھ جائز اور کچھ ناجائز ہیں:

 (1) کھیتی کا بیج بونے اور پھلوں کا پودا لگانے سے پہلے عشر ادا کرنا بالاتفاق درست نہیں۔ اس طرح عشر ادا نہیں ہوگا، کیونکہ یہ ادائیگی، سبب ( پیداوار کا نکلنا )کے پائے جانے سے پہلے ہوگی، جیسا کہ کوئی شخص زکوٰۃ کے نصاب کا مالک بننے سے پہلے ہی زکوۃ ادا کردے تو اس کی زکوۃ ادا نہیں ہوتی۔

 (2) یونہی کھیتی کا بیج بونے کے بعد کھیتی اُگنے سے پہلے اور پھل نکلنے سے پہلے ان کا عشر ادا کرنا صحیح نہیں۔ اس میں اگرچہ ائمہ احناف کا اختلاف ہے۔ لیکن ظاہرالروایۃ ، اظہر و راجح قول کے مطابق اس طرح کرنے سے بھی عشر ادا نہیں ہوگا۔

 (3) کھیتی اگنے کے بعد اور پھلوں کے ظاہر ہونے کے بعد اس کا پیشگی ( ایڈوانس میں ) عشر دینا جائز ہے اگرچہ ابھی کھیتی پکی نہ ہو اور پھل تیار نہ ہوئے ہوں۔

اپنی فصل کا پیشگی عشر دینے کے متعلق درمختار میں ہے:

"وكذا لو عجل عشر زرعه أو ثمره بعد الخروج قبل الإدراك "

یعنی: اسی طرح اگر کوئی اپنی کھیتی یا باغ کے پھلوں کا عشر کھیتی یا پھلوں کے نکلنے کے بعد لیکن ادراک (مکمل پکنے/ تیار ہونے) سے پہلے ادا کر دے تو یہ جائز ہے۔ (درمختار، جلد5، صفحہ534، 535، مطبوعہ کوئٹہ)

اس کے تحت ردالمحتار میں علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

" (قوله: بعد الخروج) أي خروج الزرع أو الثمر (قوله: قبل الإدراك) أي إدراك الزرع أو الثمر۔۔۔ وأفاد أن التعجيل قبل الزرع أو قبل الغرس لا يجوز اتفاقا؛ لأنه قبل وجود السبب كما لو عجل زكاة المال قبل ملك النصاب۔۔۔.قال في النهر: والأظهر أنه لا يجوز في الزرع قبل النبات وكذا قبل طلوع الثمر في ظاهر الرواية. اهـ"

یعنی مصنف کا قول: بعدالخروج سے مراد کھیتی یا پھل کا نکلنا (اُگنا)ہے، اور مصنف کا قول: قبل الإدراك یعنی کھیتی یا پھل کے پکنے سے پہلے۔۔۔مصنف نے افادہ کیا کہ اگر بیج ڈالنے یا پودا لگانے سے پہلے ہی عشر نکال دیا جائے تو یہ بالاتفاق ناجائز ہے، کیونکہ یہ سبب (یعنی پیداوار کے نکلنے) سے پہلے ہے، بالکل اسی طرح جیسے اگر کوئی نصاب کا مالک بننے سے پہلے ہی زکوٰۃ نکال دے۔ "النهر" میں ہے: "راجح یہ ہے کہ کھیتی کے اگنے سے پہلے یا پھل کے نکلنے سے پہلے عشر کی ادائیگی جائز نہیں، یہی ظاہر الروایہ ہے۔ملتقطا (ردالمحتار، جلد5، صفحہ 534، 535، مطبوعہ کوئٹہ)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولو عجل بعد الزراعة بعد النبات فإنه يجوز ولو عجل بعد الزراعة قبل النبات فالأظهر أنه لا يجوز، ولو عجل عشر الثمار إن كان بعد طلوعها يجوز، وإن كان قبل طلوعها لا يجوز في ظاهر الرواية هكذا في شرح الطحاوي"

یعنی اگر بیج بونے اور کھیتی اگنے کے بعد عشر ادا کرے تو جائز ہے۔ لیکن اگر بیج بونے کے بعد کھیتی اگنے سے پہلے ادا کرے تو اظہر قول کے مطابق جائز نہیں۔ اور اگر پھل نکلنے کے بعد اِن کا عشر دا کیا، تو جائز ہے، اور اگر پھل نکلنے سے پہلے ادا کیا، تو ظاہرالروایۃ کے مطابق عشر ادا کرنا، جائز نہیں، اسی طرح شرح طحاوی میں مسئلہ موجود ہے۔ (فتاوی ہندیہ، جلد1، صفحہ 186، مطبوعہ دارالفکر بیروت)

عشر واجب ہونے کا اصل وقت بیان کرتے ہوئے بہار شریعت میں صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں: "عشر اس وقت لیا جائے جب پھل نکل آئیں اور کام کے قابل ہو جائیں اور فساد کا اندیشہ جاتا رہے، اگرچہ ابھی توڑنے کے لائق نہ ہوئے ہوں۔  (بھار شریعت، جلد1، صفحہ919، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب محمد ساجد عطاری

مصدق: مفتی ابوالحسن محمد ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر: NRL -0332

تاریخ اجراء: 28 محرم الحرام1447 ھ/23جولائی2025ء