
مجیب: مفتی محمد ہاشم خان عطاری
فتوی نمبر: Lar-6291-a
تاریخ اجراء: 11 جمادی الاول 1438 ھ/09 فروری 2017 ء
دار الافتاء اہلسنت
( دعوت )
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس بارے میں کہ زیاد ایک نوکری پیشہ ہے اورمعقول تنخواہ پاتاہے اس نے آمدنی میں اضافے کے لئے انٹرنیٹ کے ذریعے "فارایکسٹ" کا کاروبار شروع کیا جس میں کئی لاکھ روپے لگے مگر کاروبار میں اسے نقصان سے دوچارہوناپڑا، مذکورہ کاروبار کے لئے رقم اس نے لوگوں سے قرض لی تھی۔ پھرلوگوں کے قرض کی واپسی کے مطالبہ پراس نے دو بینکوں سےسودی قرض لیا، اور لوگوں کا قرض اتار دیا، اب یہ شخص سودی قرض میں پھنساہوا جو کہ چودہ لاکھ(1400000) روپے تک ہوچکا ہے۔
شرعی رہنمائی فرمائیں! کیا مذکورہ صورت میں زیاد کو زکوۃ دینے کی اجازت ہے جبکہ وہ شرمندہ بھی ہے کہ اس سے غلطی ہوئی اور توبہ کرچکا۔
نوٹ: واضح رہے کہ زیاد کے پاس کوئی پراپرٹی یازیورات یاحاجات اصلیہ کے علاوہ اتنا مال نہیں ہے کہ وہ قرض ادا کرکے نصاب کا مالک ہو۔ (آمدنی سے گھریلوخرچ ہی چلتاہے) زیاد ہاشمی نہیں ہے۔
سائل: انوار احمد صدیقی (مغلپورہ)
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
صورت مسئولہ میں زیاد کو زکوۃ دینا شرعاً جائز ہے جبکہ دینے والا اس کے اصول و فروع (یعنی والدین اور اولاد) میں سے نہ ہو اور نہ ہی اس کی زوجہ ہو کیونکہ جس شخص پر اتنا قرض ہو کہ اُسے ادا کرنے کے بعد اپنی حاجاتِ اصلیہ کے علاوہ نصاب کا مالک نہ رہے اور وہ ہاشمی نہ ہو، نہ یہ زکوۃ دینے والا اس کی اولاد میں ہو، نہ باہم میاں بیوی ہوں، تو اسے زکوۃ دینا بلاشبہ جائز ہے بلکہ مقروض فقیر کو زکوۃ دینا دوسرے فقیر کو دینے سے بہتر ہے۔
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم