زکوۃ کی رقم میلاد پر خرچ کرنا کیسا؟

زکوٰۃ کی رقم  کو میلاد کے انتظامات میں خرچ کرنے کا حکم

دارالافتاء اھلسنت عوت اسلامی)

سوال

میرے پاس 20 لاکھ روپے موجود ہیں، جن پر سالانہ زکوٰۃ ڈھائی فیصد کے حساب سے تقریباً پچاس ہزار روپے بنتی ہے، ہم ہر سال میلاد النبی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی محفل منعقد کرتے ہیں، جس میں دیگ، کھانے اور دیگر انتظامات پر رقم خرچ ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا زکوٰۃ کی رقم (یعنی یہ پچاس ہزار روپے) میلاد کے کھانے یا دیگر انتظامات پر، خرچ کی جا سکتی ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

زکوٰۃ کی رقم کو میلاد شریف کے انتظامات وغیرہ پر خرچ نہیں کر سکتے، اور اس طرح زکوٰۃ بھی ادا نہیں ہوگی کیونکہ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے کسی مستحقِ زکوٰۃ کو مالِ زکوٰۃ کا مالک بنانا شرط ہے اور محفل کے انتظامات وغیرہ میں رقم خرچ کرنے میں مستحق زکوۃ کو مالک کرنا نہیں پایا جاتا ہے۔ نیز عام طور پر اس طرح کی محافل میں جو کھانا کھلایا جاتاہے، وہ محفل کے مقام پر بٹھاکر، بغیر مالک بنائے کھلایا جاتا ہے، لہذااس طرح کی محافل کے لنگرمیں بھی زکوۃ کی رقم خرچ نہیں کرسکتے، ہاں! اگر کھانے کا مالک بنادیا جائے جیسے تقسیم کرنے میں ہوتا ہے کہ وہ چاہیں یہاں کھائیں یا گھر لے جائیں، یا گھر ہی کھلائیں لیکن صراحت کردی جائےکہ آپ مالک ہیں، چاہیں یہاں کھائیں، اور چاہیں تو گھرلے جائیں، تواس صورت میں اگر مستحق زکوۃ کو (یعنی شرعی فقیر، جونہ سیدوہاشمی ہواورنہ اپنی اولادمیں ہواورنہ خوداس کی اولادمیں ہو، اسے) زکوۃ کی نیت سے کھانے کا مالک بنادیا جائے، تو پھر جتنے کھانے کا مالک بنایاہے، اس کی مارکیٹ ویلیوکے مطابق جتنی رقم بنتی ہے، اتنی زکوۃ اداہوجائے گی، اور غیرمستحق کو جو کھانا دیا جائے گا، اس کو زکوۃ میں شمار نہیں کرسکتے۔ تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے

یشترط ان یکون الصرف (تملیکا) لا اباحۃ

یعنی:  زکوۃ کی ادائیگی کے لیے بطورِ تملیک دینا شرط ہے، بطورِ ابا حت کافی نہیں۔ (تنویر الابصار مع الدر المختار، جلد3، صفحہ341، مطبوعہ: کوئٹہ)

فتاوی رضویہ میں ہے "عوض زرِ زکوٰۃ کے، محتاجوں کو کپڑے بنا دینا، انہیں کھانا دے دینا، جائز ہے اور اس سے زکوٰۃ ادا ہو جائے گی، خاص روپیہ ہی دینا واجب نہیں، مگر ادائے زکوٰۃ کے معنی یہ ہیں کہ اس قدر مال کا محتاجوں کو مالک کر دیا جائے، اسی واسطے اگر فقراء و مساکین کو مثلاً: اپنے گھر بلا کر کھانا پکا کر بطریقِ دعوت کھلا دیا، تو ہر گز زکوٰۃ ادا نہ ہو گی، کہ یہ صورت اباحت ہے، نہ کہ تملیک، یعنی مدعو اس طعام کو ملکِ داعی پر کھاتا ہے اور اس کا مالک نہیں ہو جاتا۔۔ہاں اگر صاحبِ زکوٰۃ نے کھانا خام، خواہ پختہ مستحقین کے گھر بھجوا دیا یا اپنے ہی گھر کھلایا، مگر بتصریح پہلے مالک کر دیا، تو زکوٰۃ ادا ہو جائے گی۔" (فتاوی رضویہ، ج10، ص70، 71، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

فتاوی رضویہ میں ہے "نہ والدین کو دے سکتا ہے نہ سادات کو اگرچہ محتاج ہوں، نہ کسی غنی کو اگرچہ عالم ہو، ہاں صرف محتاجوں کو دینا لازم ہے اگرچہ اس کی پھوپھی، خالہ، بہن، بھائی، چچا، ماموں ہوں، اگرچہ مجلس شریف یا گیارھویں شریف کرکے یا افطاری میں مالک کردے،

فانھا طریق الاداء والاجتماع لذکر النبی صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم او ایصال الثواب الی ولی ﷲ الکریم رضی اﷲ تعالٰی عنہ لاینافی النذر ولاینفی التصدق مال زکوٰۃ ھو۔

جب بھی یہی حکم ہے جو خاص منت کا حکم تھا مال زکوٰۃ و نذر طالب علموں کو بھی دے سکتے ہیں خواہ کپڑے بنادے خواہ اناج یا کھانا انہیں دے کر مالک کردے، ہاں گھر بٹھاکر کھلانے سے زکوٰۃ و نذر ادا نہ ہوگی لانہ اباحۃ والتصدق تملیک کما نصواعلیہ " (فتاوی رضویہ، ج13، ص596، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

فتاوی رضویہ میں ہے ”زکوٰۃ میں روپے وغیرہ کہ عوض بازار کے بھاؤ سے اس قیمت کا غلّہ مکّا وغیرہ محتاج کو دے کر بہ نیت زکوٰۃ مالک کردینا جائز و کافی ہے، زکوٰۃ ادا ہوجائے گی، مگر جس قدر چیز محتاج کی ملک میں گئی، بازار کے بھاؤ سے جو قیمت اس کی ہے وہی مجرا ہوگی، بالائی خرچ محسوب نہ ہوں گے۔“ (فتاوی رضویہ، ج 10، ص 69، 70، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد شفیق عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-4506

تاریخ اجراء:13جمادی الثانی1447ھ/05دسمبر2025ء