دار الافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ ایک شخص کے پاس دو تولے سونا تھا، پھر کچھ اضافی رقم بھی مل گئی، جس کی وجہ سے یہ شخص صاحبِ نصاب ہو گیا، لیکن تقریباً سات ماہ کے بعد اس نے وہ رقم کسی ضرورت میں خرچ کر لی اور اس کے پاس دو تولہ سونے کے سوا کوئی مالِ زکوۃ باقی نہ رہا۔ اس واقعے کے تقریباً ایک ماہ بعد اس کے پاس دوبارہ سے کچھ رقم جمع ہو گئی، جو کہ اس کی حاجتِ اصلیہ سےزائد تھی اور وہ رقم ابھی تک موجود ہے، جس کو ملے ہوئے ابھی تقریباً چار ماہ ہونے والے ہیں، جبکہ پہلی مرتبہ جب اضافی رقم جمع ہوئی تھی، اس کو اب سال مکمل ہونے والا ہے، تو اس حوالے سے رہنمائی فرما دیں کہ اس پر زکوۃ کی ادائیگی کب لازم ہو گی؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں صاحب نصاب ہونے کے وقت سے ایک سال مکمل ہونے پر بھی، اگر وہ شخص صاحبِ نصاب ہو، تو سال مکمل ہوتے ہی اس پر زکوۃ ادا کرنا فوری طور پر لازم اور اس میں تاخیر کرنا شرعاً ناجائز و گناہ ہے، کیونکہ اصول یہ ہے کہ دورانِ سال، مالِ زکوۃ کے نصاب سے کم ہو جانے سے زکوۃ کے سال کا حساب ساقط نہیں ہوتا، بلکہ اسی حساب سے سال پورا ہونے پر صاحبِ نصاب ہونے کی صورت میں زکوۃ دینا لازم ہوتاہے،البتہ اگر مالِ زکوٰۃ مکمل طور پر ختم ہو جائے اور اس میں سے کچھ بھی باقی نہ رہے، تو اس صورت میں اس سال کا اعتبار ساقط ہو جائے گااور دوبارہ صاحبِ نصاب ہونے کی صورت میں نیا سال شمار ہو گا۔
صاحبِ نصاب ہونے کے بعد، دورانِ سال اموالِ زکوۃ کے نصاب سے کم ہو جانے کے متعلق علامہ مَرْغِینانی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 593ھ / 1196ء) لکھتے ہیں:
و إذا كان النصاب كاملا في طرفي الحول فنقصانه فيما بين ذلك لا يسقط الزكاة لأنه يشق اعتبار الكمال في أثنائه أما لا بد منه في ابتدائه للانعقاد و تحقق الغنى و في انتهائه للوجوب و لا كذلك فيما بين ذلك لأنه حالة البقاء بخلاف ما لو هلك الكل حيث يبطل حكم الحول و لا تجب الزكاة لانعدام النصاب في الجملة
ترجمہ: اور اگر سال کے آغاز اور اختتام پر نصاب مکمل ہو، تو درمیان میں اس کا کم ہونا زکوٰۃ کو ساقط نہیں کرے گا کیونکہ پورے سال میں ہر وقت نصاب کا مکمل ہونا مشقت کا باعث ہے۔ بہرحال سال کے آغاز میں زکوۃ کے منعقد ہونے کیلئے اور مالک نصاب ہونے کے لئے ضروری ہے اور سال کے اختتام پر زکوۃ کے واجب ہونے کیلئے نصاب کا ہونا ضروری ہے اور درمیان میں ایسا کچھ نہیں کیونکہ وہ باقی رہنے کی حالت ہے، برخلاف اس کے کہ اگر تمام مال ہلاک ہو جائے تو سال کا حکم ختم ہو جاتا ہے، اور نصاب کے مکمل طور پر ختم ہو نے کے باعث زکوٰۃ واجب نہیں رہتی۔ (الھدایة، جلد 2، صفحہ 267، دار الفكر، بيروت)
سال مکمل ہونے کے بعد زکوۃ کی ادائیگی میں تاخیر کے متعلق امامِ اہلِ سُنَّت، امام اَحْمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1340ھ / 1921ء) لکھتے ہیں: اگر سال گزر گیا اور زکوۃ واجب الادا ہو چکی تو اب۔۔۔ فورا تمام و کمال زرواجب الادا، ادا کرے کہ مذہب صحیح و معتمد و مفتی بہ پر ادائے زکوۃ کاو جوب فوری ہے جس میں تاخیر باعث گناہ ہے۔ (فتاوی رضویہ، جلد 10، صفحہ 80، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: FSD-9582
تاریخ اجراء: 04 جمادی الاولی 1447ھ / 27 اکتوبر2025ء