دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
ایک رہائش والی زمین کو دس سال پہلے بیچنے کے ارادے سے خریدا تھا اس کو بیچنے پر جو رقم حاصل ہوگی کیا صرف اسی پر زکوٰۃ ہوگی یا پچھلے دس سال کی بھی زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
بیچنے کی نیت سے زمین خریدی، تو وہ مال تجارت بن گئی، اور شرائط پائے جانے (یعنی حاجات اصلیہ کے علاوہ اور قرض ہو تو اس کو بھی مائنس کرنے کے بعد تنہا زمین یا دوسرے اموال زکاۃ(سونا، چاندی، رقم وغیرہ) موجود ہوں تو ان کو ملانے کے بعد کم از کم ساڑھے باون تولے چاندی کے برابر مالیت ہونے) کی صورت میں، مال تجارت کی زکوۃ ہر سال ادا کرنا ضروری ہوتا ہے، اور اس میں بلاعذر تاخیر، ناجائز ہوتی ہے، لہذا اگر مذکورہ زمین خریدنے والے کے حق میں، خریدنے کے وقت سے ہی زکاۃ کی تمام شرائط موجودتھیں، اور دس سالوں تک شرائط موجود رہیں، تواس پر ہر سال زکاۃ ادا کرنا لازم تھا، اگران سالوں کی زکاۃ اس نے بلاعذر شرعی ادا نہیں کی، تو وہ سخت گنہگار ہے، اور اس پر لازم ہے کہ ان گزشتہ دس سالوں کی زکوۃ کا حساب لگا کر فوراً ادا کرنے کے ساتھ ساتھ تاخیر کے گناہ سے توبہ بھی کرے، اور اگر دس سالوں تک زکاۃ لازم ہونے کی شرائط نہ رہیں، ان سے کم رہیں، توجتنے سال رہیں، انہی سالوں کی زکاۃ ادا کرنا لازم ہے اور جتنی تاخیر ہوئی اس کی توبہ بھی لازم ہے۔
گزشتہ دس سالوں کی زکوۃ کے حساب لگانے کا طریقہ:
اولاً دس سال پہلے کی اس زمین کی قیمت کا حساب لگا کر (اور ساتھ میں اگر کوئی دوسرا مال زکوۃ یعنی رقم، سونا، چاندی، وغیرہ ہو اور اس کی بھی زکوۃ ادانہیں کی، تواس کی بھی قیمت لگاکر) قرض ہو تو اسے مائنس کرکے، پہلے سال کی زکوۃ کا حساب کریں، اور جتنی زکوۃ بنتی ہے، اس کو نوٹ کرلیں، پھر اس سے اگلا سال مکمل ہونے پر زمین وغیرہ اموال زکوۃ کی جوقیمت تھی، وہ معلوم کریں اور اس میں سے گزشتہ سال کی زکوۃ (اور اگر کوئی قرض تھا تو اسے بھی) نکال کر جو بچے، اس میں سے اس دوسرے سال کی زکوۃ نکالیں، اور اسے بھی نوٹ کرلیں، پھر اس سے اگلا سال مکمل ہونے پر زمین وغیرہ اموال زکوۃ کی جوقیمت تھی، وہ معلوم کریں اور اس میں سے گزشتہ دو سالوں کی زکوۃ (اور اگر کوئی قرض تھا تو اسے بھی) نکال کر جو بچے، اس میں سے اس تیسرے سال کی زکوۃ نکالیں، اور اسے نوٹ کرلیں، وعلی ھذا القیاس، یونہی کرتے جائیں کہ ہر سال کی زمین وغیرہ اموال زکوۃ کی قیمت الگ نکلوائیں اور اس میں سے گزشتہ سالوں کی زکوۃ مائنس کرتے جائیں، اور ہر سال کی زکوۃ کو نوٹ کرتے جائیں، یہاں تک کہ یا تو نصاب ہی نہ رہے (نہ زمین کی قیمت میں سے اور نہ کوئی دوسرا مال زکوۃ ملا کر)اور یا پھر دس سالوں کی زکوۃ کا حساب مکمل ہوجائے، پھر جتنے سالوں کی جتنی زکوۃ ہر سال نوٹ کی، اس سب کو جمع کریں، اور جتنی رقم بنتی ہو، وہ زکوۃ میں ادا کردیں۔
نوٹ: یادرہے کہ! زکوۃ کے معاملے میں اسلامی سال کا اعتبار ہوتاہے۔ اسلامی سال کے جس مہینے کی جس تاریخ کو جس وقت پہلی مرتبہ نصاب کے برابر یا زائد مال زکوۃ ملکیت میں آیا، اس وقت سے زکاۃ کانصاب شروع ہوگیا، اب اگلے سال جب اسی مہینے کی وہی تاریخ اوروہی وقت آئے گا، تو اس وقت اگرنصاب کے برابر یا اس سے زائد مال زکوۃ موجود ہے، تواس سارے پر زکوۃ لازم ہوگی، درمیان سال اگر نصاب سے کم بھی ہوجائے تو کوئی حرج نہیں، جبکہ بالکلیہ مال ختم نہ ہوا ہو۔ نیز سال کے دوران جو نیامال زکوۃ(رقم، سونا، چاندی وغیرہ) حاصل ہو، اسے پچھلے اس مال کے ساتھ ملاتے جائیں گے، جس کاسال جاری ہے، اورجب اس پچھلے کا سال پورا ہوجائے گا تو اس کا سال بھی پورا ہوناشمار ہوگا، اگرچہ سال پورا ہونے سے ایک لمحہ پہلے ہی حاصل ہوا ہو۔
امام شمس الائمہ سرخسی علیہ الرحمۃ ارشاد فرماتے ہیں:
”ان اشتری دارا للتجارۃ فحال علیھا الحول زکا ھا من قیمتھا“
ترجمہ: اگر کسی نےتجارت کے لئے مکان خریدا، پس اس پر سال گزر گیا تو (سال مکمل ہونے پر) وہ اُس کی قیمت کے اعتبار سے اُس کی زکوٰۃ دےگا۔ (المبسوط للسرخسی، الجزء الثانی، صفحہ212، دار احیاء التراث العربی، بیروت)
سال مکمل ہونے پر جو قیمت ہو گی، اُس کا اعتبار ہو گا۔ چنانچہ فتاوی عالمگیری میں ہے
"وتعتبر القیمۃ عند حولان الحول"
ترجمہ: (زکوۃ ادا کرنے میں) سال پورا ہونے کے وقت کی قیمت کا اعتبار ہو گا۔ (فتاوی عالمگیری، جلد1، صفحہ179، مطبوعہ: کوئٹہ)
صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: ”مالِ تجارت میں سال گزرنے پر جو قیمت ہو گی، اُس کا اعتبار ہو گا۔“ (بہارشریعت، جلد1، حصہ5، صفحہ907، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
زکوٰۃ سے قرض منہا ہوتا ہے۔ چنانچہ تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے
”(فلا زکاۃ علی۔۔۔ مدیون للعبد بقدر دینہ) فیزکی الزائد ان بلغ نصابا“
ترجمہ: جس پر کسی بندے کا قرض ہو، اُس قرض کی مقدار اس پر زکوٰۃ نہیں ہوگی۔ ہاں! اگر قرض نکال کر بچنے والا بقیہ مال، نصاب کو پہنچ جائے، تواُس کی زکوٰۃ دینی گی۔ (تنویر الابصار مع الدر المختار، جلد3، صفحہ214، 215، مطبوعہ: کوئٹہ)
زکوۃ کی ادائیگی میں بلاوجہ شرعی تاخیر کرنا گناہ ہے۔ سیدی اعلیٰ حضرت امام اہل سنت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ”اب تک جو ادا میں تاخیر کی، بہت زاری کے ساتھ اُس سے توبہ فرض ہے اور آئندہ ہر سال تمام پر فوراًادا کی جائے۔“ ( فتاویٰ رضویہ، جلد 10، صفحہ 129، رضا فاؤنڈیشن، لاھور )
زکوۃ کے معاملے میں اسلامی سال کا اعتبار ہے، جیسا کہ فتاوی عالمگیری میں ہے:
”(ومنها حولان الحول على المال) العبرة في الزكاة للحول القمري كذا في القنية، وإذا كان النصاب كاملا في طرفي الحول فنقصانه فيما بين ذلك لا يسقط الزكاة كذا في الهداية۔“
ترجمہ: زکوٰۃ واجب ہونے کی شرائط میں سے ایک شرط مال پر سال گزرنا بھی ہے، یہاں زکاۃ میں قمری سال کا اعتبار ہے، جیسا کہ قنیہ میں ہے۔ اگر سال کے شروع اور آخر میں نصاب کامل ہے تو درمیانِ سال نصاب میں ہونے والی کمی سے زکوٰۃ ساقط نہیں ہوگی، جیسا کہ ہدایہ میں ہے۔ (فتاوٰی عالمگیری، کتاب الزکاۃ، ج01، ص175، مطبوعہ: پشاور)
فتاوی رضویہ میں ہے "سب میں پہلی جس عربی مہینے کی جس تاریخ جس گھنٹے منٹ پر وہ 56 (چاندی کے) روپیہ کا مالک ہوا اور ختمِ سال تک یعنی وہی عربی مہینہ وہی تاریخ وہی گھنٹہ منٹ دوسرے سال آنے تک اس کے پاس نصاب باقی رہا، وہی مہینہ تاریخ منٹ اس کے لیے زکوۃ کا سال ہے، آمدنی کا سال کبھی سے شروع ہوتا ہو، اُس عربی مہینہ کی اس تاریخ منٹ پر اس کی زکوۃ دینا فرض ہے۔" (فتاوٰی رضویہ، ج10، ص 157، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
درمیان سال ملنے والے مال کے متعلق بہارِ شریعت میں ہے " جو شخص مالک نصاب ہے، اگر درمیان سال میں کچھ اور مال اسی جنس کا حاصل کیا، تو اُس نئے مال کا جدا سال نہیں، بلکہ پہلے مال کا ختم سال اُس کے لیے بھی سالِ تمام ہے، اگرچہ سال تمام سے ایک ہی منٹ پہلے حاصل کیا ہو، خواہ وہ مال اُس کے پہلے مال سے حاصل ہوا یا میراث وہبہ یا اور کسی جائز ذریعہ سے ملا ہو۔" (بہارِ شریعت، حصہ 5، جلد 1، صفحہ 884، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد نور المصطفیٰ عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-4480
تاریخ اجراء:05جمادی الثانی1447ھ/27نومبر2025ء