گیارہ تولہ سونے پر زکاۃ کا حکم

مال زکوٰۃ نصاب سے زائد ہو تو خمس پر زکوٰۃ کی تفصیل

دارالافتاء اھلسنت عوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میرے پاس گیارہ (11) تولہ گولڈ ہے، اس کے علاوہ مال زکاۃ(چاندی، مال تجارت وغیرہ) کچھ نہیں، تو اس میں سے کتنے سونے پر زکاۃ لازم ہوگی ؟ اس حوالے سے رہنمائی فرمائیں۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں اگر آپ کے پاس صرف گیارہ تولے سونا ہے، اس کے علاوہ اموالِ زکاۃ میں سے کچھ بھی نہیں تو آپ پر صرف ساڑھے دس تولے سونے کی زکاۃ نکالنا لازم ہوگی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ:

سونا، چاندی وغیرہ اموال زکاۃ نصاب سے زائد ہوں تو خمس یعنی پانچویں حصےسے کم تک معاف ہے، اس کی زکاۃ لازم نہیں البتہ اگر ایک یاایک سے زائد پانچویں حصے کے برابر ہوں تو ہر خمس (پانچویں حصے) کے اعتبارسے زکاۃ لازم ہوگی یعنی ہر پانچویں حصے کی زکاۃ نکالی جائے گی، آخر میں اگر پانچویں حصے سے کم بچا تو اب اس بچے ہوئے زائد مال کی زکاۃ لازم نہیں ہوگی، اور گیارہ (11) تولے سونے میں ساڑھے دس تولے تک دو خمس بنتا ہے بقیہ آدھا تولہ بچتا ہے، لہذا اس آدھے تولے کی زکاۃ نہیں ہوگی، بقیہ ساڑھے دس تولے کی ڈھائی فیصد ز کاۃ نکالنا لازم ہوگی۔

سنن ابی داؤد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے حدیث پاک مروی ہے کہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

” فإذا بلغت مائتين ففيها خمسة دراهم“

ترجمہ: تو جب دراہم (چاندی ) دو سو ہو جائیں تو اس میں پانچ درہم لازم ہیں۔ (سنن ابی داؤد، رقم الحدیث 1574، ج 2، ص 101، مطبوعہ بیروت)

اس حدیث پاک کے تحت مرآۃ المناجیح میں ہے: ”فقہاء فرماتے ہیں کہ چاندی، سونے کی زکوۃ میں دو نصابوں کے درمیان نصاب کے پانچویں حصہ سے کم معاف رہتا ہے اور پانچویں حصہ پر زکوۃ بڑھتی ہے، چنانچہ ساڑھے سات تولہ سونے کے بعد ڈیڑھ تولہ سے کم میں معافی ہوگی اور ڈیڑھ تولہ پر زکوۃ بڑھے گی، چاندی میں ساڑھے باون تولہ کے بعد سوا دس تولہ تک معافی اور ساڑھے دس تولہ پر زکوۃ بڑھے گی۔ (مرآۃ المناجیح، جلد 3، صفحہ 33، طبع: نعیمی کتب خانہ گجرات )

رد المحتار میں علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:

”ما زاد على النصاب عفو إلى أن يبلغ خمس نصاب، ثم كل ما زاد على الخمس عفو إلى أن يبلغ خمسا آخر“

 ترجمہ: نصاب پر جو مال زائد ہے، اس کی چھوٹ ہے یہاں تک کہ نصاب کے پانچویں حصے کو پہنچے پھر ہر وہ جو پانچویں حصے سے زائد ہو، معاف ہے یہاں تک کہ دوسرے پانچویں حصے کو پہنچے۔  ( رد المحتار، جلد 2، صفحہ 299، طبع: بیروت)

فتاوی فیض الرسول میں ایک سوال کے جواب میں مذکور ہے: ”بکر کے پاس ساٹھ(60) تولہ چاندی کے ساتھ مال تجارت یا روپیہ پیسہ اتنا نہیں تھا کہ ان سے ساڑھے باون تولہ چاندی کے اوپر ساڑھے دس تولہ چاندی پوری ہو جاتی تو اس صورت میں اس پر صرف ساڑھے باون تولہ چاندی ہی کی زکوۃ فرض ہوئی، اس لئے کہ جو چاندی نصاب کے پانچویں حصہ سے کم ہو اس کی زکوۃ معاف ہے اور اگر اس کے مال تجارت کی قیمت یا روپیہ سے نصاب کا پانچواں حصہ یا اس سے زیادہ چاندی ہو جاتی تو اس صورت میں ساڑھے باون تولہ کے اوپر ہر ساڑھے دس تولے چاندی کی بھی زکاۃ واجب ہوئی اور اخیر میں جو ساڑھے دس تو لہ چاندی سے کم بچے اس کی زکاۃ معاف رہے گی۔" ( فتاوی فیض الرسول، جلد 1، صفحہ 478، طبع: شبیر برادرز لاہور )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد حسان عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4276

تاریخ اجراء: 30ربیع الاول1447 ھ/24ستمبر 2520 ء