دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کوئی شخص اپنی زکوۃ کسی شرعی فقیر کو دے، پھر وہ فقیر اپنی طرف سے انہی پیسوں سے زکوۃ دینے والے کے درسِ نظامی یا کسی اور چیز کی فیس میں جمع کرائے، تو کیا اس طرح کرسکتے ہیں؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
شرعی فقیر کو زکوۃ دینے سے اگر دینے والے کا اصل مقصد یہ ہو کہ زکوۃ فقیر کو دے کر بطور حیلہ اپنی ضرورت یا فیس وغیرہ میں خرچ کی جائے، تو یہ ناجائز حیلہ ہے، ایسا کرنا حرام و گناہ ہےکہ یہ مقاصدِ شرع کے خلاف ہے، اس میں زکوٰۃ کا مقصد فوت ہوجاتا ہے، کیونکہ زکوٰۃ کی اصل حکمت یہ ہے کہ فقیر کی حاجت پوری کی جائے، نہ کہ دینے والا خود اپنی ہی ضرورت پوری کرے۔ اس طرح حیلہ بازی کر کے زکوٰۃ کو اپنے ذاتی استعمال میں لانا، اللہ تعالیٰ کے ساتھ فریب کرنا ہے، اس کی ہرگز اجازت نہیں۔
زکوۃ کی رقم حیلہ کر کے اپنے کام میں لانے والوں کے بارے میں سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں: ’’ہزاروں روپے فضول خواہش یاد نیوی آسائش یا ظاہری آرائش میں اٹھانے والے مصارفِ خیر میں ان حیلوں کی آڑ نہ لیں۔ متوسط الحال بھی ایسی ہی ضرورتوں کی غرض سے خالص خدا ہی کے کام میں صرف کرنے کیلئے ان طریقوں پر اقدام کریں، نہ یہ کہ معاذ اللہ ان کے ذریعے سے ادائے زکوۃ کا نام کر کے رو پیہ اپنے خُرد بُرد میں لائیں کہ یہ امر مقاصد شرع کے بالکل خلاف اور اس میں ایجاب زکوۃ کی حکمتوں کا یکسر ابطال ہے،تو گویا اس کا برتنا اپنے رب عزوجل کو فریب دینا ہے۔ و العیاذ بالله رب العالمین۔‘‘ (فتاوی رضویہ، جلد 10، صفحه 109، رضا فاؤنڈیشن، لاهور)
مفتی شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ ارشادفرماتے ہیں:’’بلاضرورت شرعیہ زکوۃ،فطرے کی رقم مستحقین کے علاوہ میں صرف کرنا سخت مذموم ہے، خصوصاً غیر دینی کاموں میں۔خصوصاً جب خود اپنے ہی اوپر یا مال داروں پر خرچ ہو۔۔۔ بہت سے ناخدا ترس حیلہ کر کے زکوۃ کی رقم خود رکھ لیتے ہیں۔ کیا زکوۃ اسی لئے مشروع ہوئی تھی ؟ کیا زکوۃ کا منشاء یہی ہے؟ کیا یہ زکوۃ کی ادائیگی سے فرار نہیں؟ کیا یہ اصحاب سبت کے فعل سے مشابہ نہیں ؟ انہوں نے یہی تو کیا تھا۔‘‘ (نزهة القاري شرح صحيح البخاری، جلد 2، صفحه 921، 922، فريد بك اسٹال، لاهور)
زکوۃ کے فتاوی کے مجموعے بنام ’’فتاوی اہلسنت احکام زکوۃ‘‘ میں ہے: ’’کوئی شخص اپنی ہی زکوۃ کو حیلہ کر کے اپنے کام میں لائے، اس کی ہرگز اجازت نہیں، بلکہ ایسا کرنا حرام ہے کہ ایسا کرنا مقاصد شرع کے خلاف ہے۔‘‘ (فتاوی اھلسنت احکام زکوۃ، صفحہ 555، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: FAM-894
تاریخ اجراء: 29ربیع الاول1446ھ/23ستمبر 2025ء