
دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مجھے ایک شخص نے زکوۃ کی مد میں مدرسے کے طلباء کے لئے کپڑے اور نصاب کی کتابوں کے سیٹ دئیے کہ یہ مستحقِ زکوۃ طلباء کو دینی ہیں۔ میں نے مدرسے میں جا کر مستحق طلباء تک کپڑے اور کتابیں پہنچا دیں لیکن کچھ طلباء چھٹی پر تھے تو میں نے ان کے کپڑے اور کتابیں مدرسے کے ناظم کے حوالے کردیں اور انہوں نے اگلے دن ان بچوں کے حوالے کردیں۔
معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا اس طرح زکوۃ ادا ہوجائے گی جبکہ مالک نے صرف مجھےزکوۃ کی ادائیگی کا وکیل بنایا تھا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جب کوئی شخص کسی کو وکیل بنائے، تو وہ مؤکل کی اجازت کے بغیر کسی کو وکیل نہیں بنا سکتا لیکن زکوۃ کی ادائیگی کے معاملہ میں اگر مالک نے کسی کو وکیل بنایا، اس وکیل نے مالک کی اجازت کے بغیر کسی اور کو وکیل بنا دیا اور اس وکیل نے زکوۃ ادا کردی، تو اس صورت میں زکوۃ ادا ہوجائے گی، کیونکہ زکوۃ کی ادائیگی کا مقصد یہ ہے کہ زکوۃ دینے والا بخل سے بری ہوجائے اور زکوۃ وصول کرنے والے مستحق فرد کو نفع حاصل ہوجائے اور یہ مقصد وکیل یا وکیل کے وکیل سے بھی حاصل ہوجائے گا۔ لہٰذا پوچھی گئی صورت میں آپ نے ناظم جامعہ کے ذریعہ مستحق طلباء تک کپڑے اور نصاب کی کتابیں پہنچا دیں تو بھی مذکورہ صورت میں زکوۃ ادا ہو گئی۔
رد المحتار میں ہے:
”للوكيل بدفع الزكاة أن يوكل غيره بلا إذن“
یعنی زکوۃ کی ادائیگی کے وکیل کو اختیار ہے کہ وہ بلا اجازت دوسرے کو وکیل بنا دے۔ (رد المحتار، جلد2، صفحہ 270، مطبوعہ: بیروت)
تنویر الابصار و در مختار میں ہے:
”( الوكيل لا يوكل إلا بإذن آمره) لوجود الرضا ( إلا ) إذا وكله (في دفع زكاة) فوكل آخر ثم دفع الأخير جاز ولا يتوقف“
یعنی وکیل کسی دوسرے کو وکیل نہیں بنا سکتا مگر یہ کہ آمر (حکم دینے والے) کی اجازت ہو کہ اس صورت میں رضا مندی پائی جائے گی۔ ہاں !جب اس کو زکوۃ کی ادائیگی کے معاملہ میں وکیل کیا، اس نے دوسرے کو وکیل بنادیا، پھر اس دوسرے نے زکوۃ ادا کی تو جائز ہے اور مالک کی اجازت پر موقوف نہیں۔ (الدر المختار مع تنویر الابصار، جلد5، صفحہ 527، مطبوعہ: بیروت)
تکملۃ رد المحتار میں ہے:
”لان المقصود منھا البراءۃ من سمۃ البخل فی حق المزکی ونفع الفقیر القابض لھا فلذا جاز النیابۃ فیھا عند العجزۃ والقدرۃ ولا فرق فی ذلک بین نائب و نائب“
یعنی اس وجہ سے کہ زکوۃ کی ادائیگی سے مقصود زکوۃ دینے والے کے حق میں بخل کی صفت سے بری ہونا اور زکوۃ پر قبضہ کرنے والے فقیر کا نفع ہے، لہٰذا خود ادائیگی پر قدرت ہو یا نہ ہو، دونوں صورتوں میں نیابت جائز ہے اور اس میں ایک نائب و دوسرے نائب میں کوئی فرق نہیں۔ (قرۃ عیون الاخیار تکملہ ردالمحتار، جلد 11، صفحہ 447، مطبوعہ: کوئٹہ)
بہارِ شریعت میں ہے: ”زکوۃ کے وکیل کو یہ اختیار ہے کہ بغیر اجازت مالک دوسرے کو وکیل بنا دے“ (بہارِ شریعت، جلد1، صفحہ 888، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
بہارِ شریعت میں ہے: ”ایک شخص کو زکوۃ کے روپے دے کر کہا کہ فقیروں کو دے دو، اس نے دوسرے کو کہا، اس نے تیسرے کو کہا غرض یہ کہ جو بھی فقیروں کو دے دے گا، زکوۃ ادا ہوجائے گی“ (بہارِ شریعت، جلد2، صفحہ 998، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر: Nor-13801
تاریخ اجراء: 29 شوال المکرم 1446 ھ/28 اپریل 2025 ء