
دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ درختوں پر پھل ظاہر ہونے سے پہلے پھلوں کی خرید وفروخت دارالافتاء اہلسنت سے وائرل فتوٰی (باغات ٹھیکے پر دینے کا شرعی حکم) کے مطابق جائز ہے، تو اب سوال یہ ہے کہ پھلوں کےظاہر ہونے سے پہلے ان کو خرید لیا، تو اب لگنے والے پھلوں کا عشر کس پر لازم ہوگا ؟ پھل خریدنے والے پر یا بیچنے والے پر ؟ سائل: محمد ایوب (اوکاڑہ)
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
قوانین شرعیہ کی رو سے فی زمانہ عموم بلویٰ اور تعامل کی وجہ سےجیدعلمائےكرام نے پھل ظاہر ہونے سے پہلے پھلوں کی خرید و فروخت کو جائز قراردیا ہے اور ایسی صورت میں لگنے والےپھلوں کا عشر پھل خریدنے والے پرلازم ہوگا۔
تفصیل یہ ہے کہ فصل اور پھل جب اس قدر تیار ہوجائیں کہ اب ان کے کچے اور ناتمام ہونے کے باعث بگڑنے، سوکھنے اورخراب ہونے کا اندیشہ نہ رہے، اگرچہ ابھی توڑنے کے قابل نہ ہوئے ہوں، تو ان پر عشر واجب ہوتا ہے اور جس کی مِلک میں یہ حالت پیدا ہوگی، اسی پر عشر لازم ہوگا اور پوچھی گئی صورت میں چونکہ پھلوں کی یہ حالت پھل خریدنے والےکی مِلک میں پیدا ہوگی کہ اس نے پھلوں کے ظاہر ہونے سے پہلے ہی ان کو خرید لیا، لہٰذا اس صورت میں خریدارپر عشر لازم ہوگا، بیچنے والے پر نہیں۔
پھلوں اور کھیتی کو پکنے سے پہلے بیچنے پرعشر لازم ہونے کے متعلق مہذِّب مذہبِ مہذَّب، امام محمد بن حسن شیبانی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 189 ھ / 804ء)فرماتے ہیں:
”قلت: أرأيت إن باع الزرع وهو بَقْلٌ بعد، ثم أذن البائع للمشتري أن يتركه في أرضه فتركه حتى استحصد، على من العشر؟ قال: على المشتري۔قلت: ولم؟ قال: لأنه هو الذي حصده، قلت: وكذلك كل شيء من الثمار أو غيره مما فيه العشر يبيعه صاحبه قبل أن يبلغ في أول ما أَطْلَع، ثم تركه المشتري حتى يبلغ بإذن البائع، أتكون زكاته على المشتري؟ قال: نعم“
ترجمہ: ( امام محمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ سے ) میں نے عرض کی کہ آپکی اس بارے میں کیا رائے ہےکہ اگر کسی شخص نے کھیتی کو بیچا، اس حال میں کہ وہ ابھی تھوڑی تھوڑی ظاہر ہوئی ہو (پکی نہ ہو)، پھر بیچنے والے نے خریدار کو وہ کھیتی اپنی زمین میں چھوڑے رکھنے کی اجازت دے دی، تواس نے اس کو وہاں ہی چھوڑ دیا، یہاں تک کہ اس نے کھیتی کو کاٹ لیا، تو عشر کس پر لازم ہوگا؟آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا: (عشر)خریدار پر لازم ہوگا، میں نے عرض کی: کس وجہ سے؟تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا: کیونکہ خریدار ہی وہ شخص ہے، جس نے کھیتی کو کاٹا، (امام محمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں) میں نے عرض کی: اور ایسے ہی پھل اور ان کے علاوہ چیزیں، جن میں عشر لازم ہوتا، ان کا مالک ان کو پکنے سے پہلےظاہر ہوتے ہی بیچ دے، پھر خریدار اس چیز کو بیچنے والے کی اجازت سے وہاں ہی چھوڑ دے، یہاں تک کہ وہ پک جائے، تو کیا اس کا عشر خریدار پر لازم ہوگا ؟تو امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: جی ہاں۔ (الاصل للامام محمد بن حسن الشیبانی، كتاب الزكوٰۃ، باب العشر، جلد02، صفحہ 118، 117، مطبوعہ مجلس دائرۃ المعارف)
بدائع الصنائع، بحرالرائق شرح کنزالدقائق، محیط برھانی، تبیین الحقائق، فتح القدیر اور درمختار مع ردالمحتار وغیرہم کتب فقہیہ میں ہے،
واللفظ للآخر: ” و لو باع الزرع ان قبل ادراکہ فالعشر علی المشتری و لو بعدہ فعلی البائع“
ترجمہ: اور اگر کھیتی پکنے سے پہلےبیچی، تو عشر خریدارپرہے اور اگر اس کے بعد بیچی تو (عشر) بیچنے والے پر ہے۔(درمختار مع رد المحتار، کتاب الزکوٰۃ، باب العشر، جلد 02، صفحہ 333، مطبوعہ دار الفکر، بیروت)
آم کے باغات اور کھیتی پر عشر لازم ہونے کے متعلق اعلیٰ حضرت، امامِ اہلِ سُنَّت، امام اَحْمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1340 ھ /1921 ء) لکھتے ہیں: ’’اس وقت اس (پھل)میں عشر واجب ہوتا ہے (جب)پھل اپنی حد کو پہنچ جائیں کہ اب کچے اور ناتمام ہونے کے باعث ان کے بگڑجانے، سوکھ جانے، مارے جانے کا اندیشہ نہ رہے، اگرچہ ابھی توڑنے کے قابل نہ ہوئے ہوں، یہ حالت جس کی مِلک میں پیدا ہوگی اسی پر عشر ہے، بائع کے پاس پھل ایسے ہوگئے تھے، اس کے بعد بیچے تو عشر بائع پر ہے، اور جو اس حالت تک پہنچنےسے پہلے کچے بیچ ڈالےاور اس حالت پر مشتری کے پاس پہنچے تو عشر مشتری پر ہے، بعینہ یہی حکم کھیتی کا ہے۔“ (فتاویٰ رضویہ جلد 10، صفحہ 242، 241 مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: OKR-0042
تاریخ اجراء: 06 صفر المظفر 1447 ھ / 01 اگست 2025 ء