آٹے کے بدلے آٹا ادھار لینا

چکی والے سے آٹے کے قرض کا لین دین کرنا

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ میں نے گندم پسائی کی چکی لگائی ہے، گاہک آتا ہے اور آکر کہتا ہے کہ 5 کلو آٹا دے دو کل یا آج شام کو گند م چھوڑ کر جائیں گے، اسے پیس کر 5 کلو آٹا کاٹ لینا۔ کیا اس طرح ادھار دے سکتے ہیں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

جی ہاں! اس طرح ادھار لینا، دینا شرعاً جائز ہے۔ کیوں کہ وہ چیز جو قرض میں دی جائے اس کامثلی ہونا لازم ہے اور پھر اس کا مثل ہی لوٹانا لازم ہوتا ہے۔ اور آٹا مثلی چیز ہے، لہذا اس کا قرض لینا، دینا، جائز ہے، اور یہاں واپسی پراس کا مثل ہی لوٹایا جارہا ہے، اور آٹے کے قرض لین دین، میں ہمارے ہاں رواج یہی ہے کہ وزن کے ساتھ ہی قرض لیا، دیا جاتا ہے تو رواج کی وجہ سے وزن کے ساتھ قرض لین دین کرنے میں حرج نہیں۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں جب وہ شخص آپ سے 5 کلو آٹا لے رہا ہے اور اگلے دن آپ کو اپنی گندم پسوا کر 5 کلو آٹا ہی واپس کر رہا ہے، تو اس طرح قرض کا لین دین شرعاً جائز ہے۔

در مختار میں ہے

(صح) القرض (فی مثلی) و ھو کل ما یضمن بالمثل عند الاستھلاک (لا فی غیرہ)

ترجمہ: مثلی چیزوں میں قرض صحیح ہے، مثلی کے علاوہ دیگر چیزوں میں نہیں۔ اور مثلی ہر وہ چیز ہے کہ استہلاک کے وقت اس کی مثل سے اس کا ضمان دیا جائے۔ (الدر المختار، صفحہ 429، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

البحر الرائق میں ہے

القرض مضمون بالمثل

ترجمہ: قرض کا بدلہ اس کے مثل سے دیا جائے گا۔ (البحر الرائق، جلد 6، صفحہ 133، دار الکتاب الاسلامی)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے

يجوز استقراضه وزنا استحسانا إذا تعارف الناس ذلك و عليه الفتوى

آٹے کو وزن کے اعتبار سے قرض لینا استحسانا جائز ہے جب کہ لوگوں میں اس کا عرف ہو، اور اسی پر فتویٰ ہے۔ (فتاویٰ عالمگیری، جلد 3، صفحہ 201، دار الفکر، بیروت)

بہارِ شریعت میں ہے "آٹے کوناپ کرقرض لینا دینا چاہیے اور اگر عرف وزن سے قرض لینے کا ہو جیسا کہ عموماً ہندوستان میں ہے تو وزن سے بھی قرض جائز ہے۔" (بہارِ شریعت، جلد 2، حصہ 11، صفحہ 756، مکتبۃ المدینۃ، کراچی)

مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”قرض کا حکم یہ ہے کہ جو چیز لی گئی ہےاُس کی مثل ادا کی جائے۔“ (بہار شریعت، جلد 02، حصہ 11، صفحہ 756، مکتبۃ المدینۃ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد سجاد عطاری مدنی

فتویٰ نمبر: WAT-4095

تاریخ اجراء: 10 صفر المظفر 1447ھ / 05 اگست 2025ء