کمیٹی ڈالنے کا شرعی حکم

کمیٹی ڈالنا کیسا ہے؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ کمیٹی ڈالنا جائز ہے یا ناجائز؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

عام طور پر کمیٹی اس طرح ڈالی جاتی ہے کہ ہرمہینے کچھ افراد مقررہ مقدار میں پیسے جمع کرواتے ہیں اور کسی ایک کا نام منتخب کرکے جمع شدہ پیسے اسے دے دیتے ہیں، یوں آگے پیچھے تمام افراد کوایک ایک کرکے اپنے جمع کروائے ہوئے پیسے مل جاتے ہیں۔ اس انداز پر رہ کر یہ کمیٹی ڈالنا، جائز اور درست ہے۔ البتہ کچھ کمیٹیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جن میں بولی لگائی جاتی ہے اور جو سب سے کم بولی لگاتا ہے بولی شدہ رقم اس کو دے دی جاتی ہے اور باقی جو رقم بچتی ہے وہ دیگر شرکاء میں تقسیم ہوجاتی ہے۔ مثلاً کمیٹی کی جمع شدہ مجموعی رقم دو لاکھ روپے ہے اب اگر کسی نے سب سے کم بولی ایک لاکھ اسی ہزار روپے لگائی تو ان دو لاکھ روپے میں سے ایک لاکھ اسی ہزار روپے بولی لگانے والے کو مل جائیں گے اور بقیہ بیس ہزار روپے دیگر ممبران میں تقسیم کردئیےجائیں گے لیکن کمیٹی لینے والے ممبر کو مجموعی طور پر دو لاکھ روپے ہی جمع کروانے پڑیں گے۔ یہ سود کی صورت ہے، ایسی کمیٹی ڈالنا حرام و گناہ ہے۔

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری

تاریخ اجراء: ماہنامہ فیضان مدینہ ربیع الآخر 1442ھ