دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے میں کہ ہم آن لائن کاروبار کرتے ہیں اور اپنے گاہکوں کو سامان Parcel PortX کے ذریعے بھیجتے ہیں۔ یہ کمپنی ہمیں ایک سہولت دیتی ہے :وہ یہ کہ جب ہم اپنا سامان ڈیلیور کرنے کےلیے Parcel Port X کو دیتے ہیں، تو اس سامان کی جو قیمت ہمارے گاہک نے سامان پہنچنےکے بعد دینی ہوتی ہے،جو اسی کمپنی کے نمائندے کو ہمارا گاہک کیش کی صورت میں دیتا ہے، یہ کمپنی ہمیں ڈیلیوری سے پہلے ہی اُس پارسل کی 50فیصد رقم ایڈوانس دے دیتی ہے ، جس کی وجہ سے ہمیں آدھی رقم جلد مل جاتی ہے ۔بعد میں گاہک سے رقم وصول کرکے اس میں سے اپنے ایڈوانس کی رقم کاٹ لیتی ہے اور بقیہ رقم ہمیں دے دیتی ہے۔ اس سہولت کے بدلے کمپنی ہر پارسل پر 15 روپے اضافی چارج کرتی ہے، جو ڈیلیوری چارجز کے علاوہ ہوتے ہیں۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ کمپنی سے سامان کی قیمت کا کچھ حصہ ایڈوانس لینا اور اس کے بدلے 15 روپے اضافی دینا، شرعی اعتبار سے درست ہے یا نہیں؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
آپ کا Parcel Port X کمپنی سے اپنے سامان کی آدھی قیمت ایڈوانس لینا اور اس کے بدلے ڈیلیوری چارجز کے علاوہ 15 روپے اضافی دینا، ناجائز و حرام ہے۔
اس کی تفصیل یہ ہے کہ Parcel Port X کمپنی جو رقم آپ کو ایڈوانس دیتی ہے، وہ اس آدھےدین کے عوض دیتی ہے جو آپ کے گاہک پر سامان کے عوض لازم ہوتا ہے۔ چنانچہ کمپنی آپ کے گاہک سے سامان کی رقم وصول کر کے ،اس میں سے اپنے دیے ہوئے ایڈوانس کی رقم کاٹ لیتی ہے۔ یہ دراصل دَین (واجب الادا رقم) کی بیع ہے ،یعنی آپ کمپنی کو اپنے گاہک سے موصول ہونے والا دین(ادھار رقم) ، نقد ایڈوانس رقم کے عوض فروخت کرتے ہیں اور چونکہ آپ کے سامان کا دین کمپنی پر لازم نہیں، تو یہ ایسے کو دین بیچنا ہے جس پر وہ دین لازم ہی نہیں ۔ شرعی اعتبار سے یہ عقد فاسد وباطل ہے۔
پھر کمپنی ایڈوانس رقم دینے کے عوض ڈیلیوری چارجز کے علاوہ جو 15 روپے مشروط اضافی رقم آپ سےوصول کرتی ہے، یہ ایڈوانس رقم دینے کے عوض نفع کا حصول ہے، اور دَین کے عوض اضافی مشروط منفعت لینا سود ہے۔ اس لیے یہ معاملہ سود پر مشتمل ہونے کی وجہ سےبھی حرام ہے۔
نقد رقم لے کر اپنا دین ایسے کو بیچنا جس پر وہ دین نہیں باطل و ناجائز ہے۔الاصل للامام محمد،محیط البرھانی، شرح مختصر الطحاوی للجصاص، مبسوط للسرخسی اور بحر الرائق میں ہے،
و النص للمبسوط:”وإذا كان لرجل على رجل ألف درهم من قرض أو غيره فباع دينه من رجل آخر بمائة دينار وقبض الدنانير لم يجز وعليه أن يرد الدنانير، لأن البيع لا يرد إلا على مال متقوم، وما في ذمة زيد لا يكون مالا متقوما في حق عمرو فلا يجوز بيعه منه۔۔۔ وكذلك بيع الدين من غير من عليه الدين، والشراء بالدين من غير من عليه الدين سواء، كل ذلك باطل
ترجمہ: اگر ایک شخص کا دوسرے شخص پر ایک ہزار درہم قرض یا کسی اور سبب سے واجب الادا ہو، پھر وہ شخص اپنا یہ دَین کسی تیسرے شخص کو سو دینار کے بدلے بیچ دے اور دینار وصول بھی کر لے، تو یہ جائز نہیں ہوگا، اور اُس پر لازم ہے کہ وہ دینار واپس کرے، کیونکہ بیع صرف ایسی چیز پر واقع ہو سکتی ہے جو شرعاً مالِ متقوم ہو، اور زید کے ذمہ جو دَین ہے وہ عمرو کے حق میں مالِ متقوم نہیں بنتا، لہٰذا اس کا عمرو کو بیچنا جائز نہیں۔ ۔۔اسی طرح دَین کو اُس شخص کے علاوہ کسی اور کو بیچنا یا دَین کے بدلے کسی اور سے خریداری کرنا، یہ تمام صورتیں یکساں اور باطل ہیں۔ (المبسوط للسرخسی، ج 14، ص 21، دار المعرفة ، بيروت، لبنان)
امام اہل سنت علیہ الرحمۃ سے سوال ہوا:”کسی شخص نے دو ہزار کی ڈگری کچہری سے حاصل کی جس میں ایك ہزار اصل ہے اور ایك ہزار سود،وہ شخص کسی کے ہاتھ یا وارث اس کا بعوض بارہ سو کے وہ ڈگری فروخت کرڈالے تو کیسا ہے؟“
توآپ رحمہ اللہ نے جواب ارشاد فرمایا:”زائد،برابر، کم کسی مقدار کو اصلًا بیع نہیں کرسکتا کہ ان دونوں صورت میں حقیقۃً غیر مدیون کے ہاتھ دین کا بیچنا ہے اور وہ شرعًا باطل ہے۔“ (فتاوی رضویہ، ج 17، ص 305، 307، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: HAB-0634
تاریخ اجراء: 10ربیع الأول 1447ھ/04ستمبر 2025ء