
دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا قرض کی وجہ سے خود کشی کرنا جائز ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
کسی بندے پر قرض وغیرہ ہو یا نہ ہو، بہرحال خود کشی ناجائز و حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔
یہ یادرہے کہ !جب کوئی آدمی بے روزگار، قرض دار وغیرہ ہو تو شیطان ہمدرد بن کر آتا اور بہکاتا ہے کہ تم اتنے پریشان ہو تو آخر خود کُشی کیوں نہیں کر لیتے کہ ان جھنجھٹوں سے جان چھوٹے۔ ایسی صورت حال میں آدمی بالکل ٹھنڈے دماغ سے وسوسوں کو ردّ کرے اور خود کشی کے دنیوی نقصانات اور اخروی عذابات کو اس طرح خیالات میں دہرائے!
اولا: یہ فِعل اللہ تعالٰی اور اس کے پیارے حبیب صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کو ناراض اور عزیز و اقا رِب کو غمگین کرنے والا اور ہمارے دشمنوں یعنی شیاطین وغیرہ کو راضی کرنے والا ہے۔
ثانیا: اس سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ خود کُشی کرنے والے کے عزیز و اقارِب دُکھوں اور پریشانیوں میں مزید گھِر جاتے ہیں۔
ثالثا: خودکُشی سے جان چُھوٹتی نہیں بلکہ مزید شدید پھنس جاتی ہے۔اور قرض سرپرلے کرجائے گا تو حقوق العباد کا بوجھ لے کرجائے گا، قرض تو شہید کا بھی معاف نہیں ہوتا، دنیا میں تو دنیاوی مال سے اس کی ادائیگی ہوتی ہے، اور دنیاوی مال ابھی نہیں تو بعد میں آجانے کی امید ہوتی ہے اور قرضدار سے معافی کی صورت بھی ہوسکتی ہے جبکہ قیامت میں تونیکیوں سے ادائیگی کرنا ہوگی اورنیکیاں نہ بچیں توحقوق والوں کے گناہ سرپرڈالے جائیں گے (العیاذباللہ تعالی) تو اُس شخص کے لئے کس قَدَر نقصان اور خُسران کی بات ہوگی جو شیطان کے وسوسوں میں آ کر خودکُشی کر کے خود کو عذابِ قبر و حشر و نار کا حقدار بنا لے۔
لہٰذا اِسی طرح کے تصوُّرات کے ذَرِیعہ شیطان مردود کو باِ لکل مایوس کر دے اور پریشانی وغیرہ دور کرنے کے اسباب کو اختیار کرے اور اللہ تعالی سے دعا کرے، باِلفرض بظاہر پریشانی دور نہیں بھی ہوتی تب بھی وہ اللہ تعالی کی رضا پر راضی رہے اور اس برے فعل سے اپنے آپ کو دور رکھے۔
اللہ پاک قرآن عظیم میں فرماتا ہے:
﴿وَلَا تَقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِكُمْ رَحِیْمًا (29) وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ عُدْوَانًا وَّظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِیْہِ نَارًا وَکَانَ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرًا﴾
ترجمہ کنزالایمان: اور اپنی جانیں قتل نہ کرو بیشک اللہ تم پر مہربان ہے۔اور جو ظلم و زیادَتی سے ایسا کرےگا تو عنقریب ہم اسے آگ میں داخِل کریں گے اور یہ اللہ کو آسان ہے۔ (القرآن، پارہ 5، سورۃ النساء، آیت: 29، 30)
تفسیرصراط الجنان میں ہے”﴿وَلَا تَقْتُلُوْۤا اَنْفُسَکُمْ: اور اپنی جانوں کو قتل نہ کرو۔﴾ یعنی ایسے کام کر کے جو دنیا و آخرت میں ہلاکت کا باعث ہوں اپنی جانوں کو قتل نہ کرو۔۔۔خود کو ہلاک کرنے کی مختلف صورتیں ہیں:۔۔۔خود کو ہلاک کرنے کی تیسری صورت خود کشی کرنا ہے۔ خود کشی بھی حرام ہے۔“ (صراط الجنان، جلد2، صفحہ208، 209، مکتبۃالمدینہ، کراچی)
صحیح بخاری میں ہے
”عن أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: من تردى من جبل فقتل نفسه، فهو في نار جهنم يتردى فيه خالدا مخلدا فيها أبدا، ومن تحسى سما فقتل نفسه، فسمه في يده يتحساه في نار جهنم خالدا مخلدا فيها أبدا، ومن قتل نفسه بحديدة، فحديدته في يده يجأ بها في بطنه في نار جهنم خالدا مخلدا فيها أبدا“
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو پہاڑ سے گِر کر خودکشی کرے گا وہ نارِ دوزخ میں ہمیشہ ہمیشہ گرِ تا رہے گا اور جو شخص زَہر کھا کر خودکُشی کرے گا تو وہ زہر اس کے ہاتھ میں ہوگا جس کو وہ نارِ دوزخ میں ہمیشہ ہمیشہ کھاتا رہے گا۔ جس نے لوہے کے ہتھیار سے خود کُشی کی تو وہ ہتھیار اس کے ہاتھ میں ہوگا جس کو وہ نارِ دوزخ میں ہمیشہ ہمیشہ اپنے پیٹ میں مارتا رہے گا۔ (صحیح البخاری، جلد7، صفحہ139، حدیث: 5778، مطبوعہ: مصر)
سیدنارسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"يغفر للشهيد كل ذنب إلا الدين"
ترجمہ: شہید کے ہر گناہ کی مغفرت کر دی جاتی ہے سوائے قرض کے۔ (صحیح مسلم، جلد6، صفحہ39، حدیث: 1886، مطبوعہ: ترکیا)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”من كانت عنده مظلمة لأخيه فليتحلله منها، فإنه ليس ثم دينار ولا درهم، من قبل أن يؤخذ لأخيه من حسناته، فإن لم يكن له حسنات أخذ من سيئات أخيه فطرحت عليه“
ترجمہ: جس نے اپنے بھائی پر ظلم کیا ہو، اسے چاہئے کہ اس سے (دنیا میں) معاف کروا لے کیونکہ آخرت میں درھم و دینار نہیں ہوں گے، اس سے پہلے (معاف کروا لے) کہ اس کی نیکیوں سے اس کے بھائی کو حق دلوایا جائے کیونکہ اگر اس کے پاس نیکیاں نہ ہوئیں تو اس کے بھائی کے گناہ لیے جائیں گے اور اس پر ڈال دیے جائیں گے۔ (صحیح البخاری، جلد8، صفحہ111، حدیث: 6534، مطبوعہ: مصر)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: ابو شاہد مولانا محمد ماجد علی مدنی
فتوی نمبر: WAT-4268
تاریخ اجراء: 02ربیع الثانی1447 ھ/26ستمبر 2520 ء