پانچ یا آٹھ فیصد سود والی قرض اسکیم لینا کیسا؟

پانچ یا آٹھ فیصد سود لینے والی اسکیم سے قرض لینا کیسا؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ قرض کے حوالے سے ایک اسکیم آئی ہے، جس میں متعلقہ ادارہ 20 سے 35 لاکھ روپے تک کا قرضہ دیتا ہے اور شرائط میں یہ ہے کہ مقروض 20 لاکھ قرض پر پانچ فیصد اور 35 لاکھ قرض پر آٹھ فیصد زیادہ واپس کرے گا۔ شرعی رہنمائی فرما دیں کہ یہ قرض سودی ہے یا نہیں ؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

سوال میں بیان کردہ اسکیم سے ملنے والا قرض سودی ہے، جس وجہ سے یہ قرض ہرگز نہیں لے سکتے، کیونکہ اس میں قرض پر کچھ فیصد زیادہ واپس لوٹانا مشروط ہے (جیسا کہ سوال میں وضاحت ہے)، جبکہ قرض پر کسی بھی قسم کا نفع مشروط ہو، تھوڑا ہو یا زیادہ، ہر صورت میں وہ سود ہوتا ہے، جس کا لینا دینا ناجائز و حرام ہے، قرآن و حدیث میں اس سے بہت سختی سے منع کیا گیا ہے۔

سود کی حرمت کے بارے میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:

﴿اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّؕ- ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْۤا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰواۘ- وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا﴾

ترجمہ کنز الایمان:وہ جو سود کھاتے ہیں قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے، مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط بنا دیا ہو، یہ اس لئے کہ انہوں نے کہا بیع بھی تو سود ہی کے مانند ہے اور اللہ نے حلال کیا بیع کو اور حرام کیاسود۔ (پارہ 3، سورۃ البقرۃ، آیت 275)

حدیثِ پاک میں ہے:

لعن رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اٰکل الربو و موکلہ و کاتبہ و شاھدیہ و قال:ھم سواء

ترجمہ: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نےسود کھانے والے،کھلانے والے، اس کی کتابت کرنے والےاور اس پر گواہی دینے والوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا: یہ سب لوگ (گناہ میں) برابر ہیں۔ (الصحیح لمسلم، جلد 2، صفحہ 27، مطبوعہ کراچی)

قرض پر مشروط نفع سود ہوتا ہے۔ چنانچہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

کل قرض جر منفعۃ فھو ربا

ترجمہ: ہر وہ قرض، جو نفع لائے، تو وہ سود ہے۔ (کنز العمال، جلد 16، صفحہ 238، مطبوعہ بیروت)

در مختار میں ہے:’’کل قرض جر نفعا حرام‘‘ترجمہ: ہر وہ قرض جو نفع لائے، حرام ہے۔

اس کے تحت علامہ شامی علیہ الرحمۃ رد المحتارمیں فرماتے ہیں:

ای اذا کان مشروطا

ترجمہ: یعنی جب وہ نفع قرض میں مشروط ہو، (تو حرام ہے۔) (رد المحتار مع در مختار، کتاب البیوع، باب المرابحۃوالتولیۃ، جلد 7، صفحہ 413، مطبوعہ کوئٹہ)

سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مولانا الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن قرض میں طے کیے گئے نفع سے متعلق فرماتے ہیں: ”قطعی سود اور یقینی حرام و گناہِ کبیرہ و خبیث و مردار ہے۔“ ( فتاویٰ رضویہ، جلد 17، صفحہ 269، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

سود کا ایک دانہ بھی حرام ہے، چنانچہ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں: ”سود کا ایک حبہ (دانہ) لینا حرام قطعی کہ سود لینے والے پر اللہ و رسول کی لعنت ہے۔‘‘ (فتاوی رضویہ، جلد 17، صفحہ 390، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

جس طرح سود لینا حرام ہے، اسی طرح دینا بھی حرام ہے۔ چنانچہ الاشباہ و النظائر میں ہے:

ما حرم اخذہ، حرم اعطاؤہ، کالربا

ترجمہ: جس کا لینا حرام ہے، اس کا دینا بھی حرام ہے، جیسے سود۔(الاشباہ والنظائر، الفن الاول، القاعدۃ الرابعۃ عشرۃ، صفحہ 155، مطبوعہ کراچی)

سودی معاہدہ کرنے کے بارے میں اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں: ’’سودی دستاویز لکھانا سود کا معاہدہ کرنا ہے اور وہ بھی حرام ہے۔۔ جب اس کا تمسک موجبِ لعنت اور سود کھانے کے برابر ہے، تو خود اس کا معاہدہ کرنا کس درجہ خبیث و بدتر ہے۔ (فتاوی رضویہ، جلد 6، صفحہ 546، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: Aqs-2838

تاریخ اجراء: 06 ربیع الثانی 1447ھ/30 ستمبر 2025ء