چاول کے بدلے ادھار چاول لے سکتے ہیں؟

چاولوں کے بدلے ادھار چاول لینا کیسا؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ مجھے 5 مَن چاول کی ضرورت ہے۔ میرے ایک دوست کا چاول کا کاروبار ہے، تو کیا ایک سال کی مدت کے لیے میں اس سے5 مَن چاول ادھا رلے سکتا ہوں کہ سال مکمل ہونے کے بعد میں اسے وہ 5 مَن واپس کردوں گا؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

جواب سے پہلے یہ بات ذہن نشین رکھیں کہ کون سی چیز قرض لینا جائز ہے اور کونسی چیز قرض لینا جائز نہیں،اس حوالے سے شریعت اسلامیہ کا اصول یہ ہے کہ صرف مثلی اشیاء(یعنی وہ اشیاء کہ جن کی مثل بازار میں دستیاب ہوتی ہے)کو قرض لینا اور دینا جائز ہے جیسے مکیلی ( ماپ کر دی جانے والی چیزیں ) ، موزونی (تول کر دی جانے والی چیزیں)اور عددی متقارب (گن کر دی جانے والی چیزیں جن میں فرق زیادہ نہ ہو جیسے انڈے وغیرہ) لیکن وہ چیزیں جو مثلی اشیاء میں سے نہیں جیسے جانور،  مکان، زمین، وغیرہ، تو ان کا قرض دینا صحیح نہیں۔

اس اُصول کی روشنی میں آپ کے سوال کا جواب بھی واضح ہوگیا اور وہ یہ ہے کہ فقہاء کرام کی تصریحات کےمطابق چاول مثلی اشیاء میں سے ہیں یعنی انہیں وزن کرکے لیا اور دیا جاتا ہے، اور قرض میں مثلی اشیاء کا ہونا ہی ضروری ہے، لہذا آپ کا اپنے دوست سے چاول اُدھار لینا جائز ہے، البتہ جس مقدار اورجس کوالٹی کے چاول آپ قرض لیں گے، اتنی مقدار میں (جیسے سوال میں 5 مَن کا ذکر کیا گیا) اور اسی کوالٹی کے چاول واپس کرنا آپ کے ذمہ لازم ہو گا کیونکہ چاول مثلی شے (اس کی مثل بازار میں پائی جاتی) ہے اور جب مثلی شے قرض میں دی جائے تولوٹاتے وقت اس کی مثل ہی دینا لازم ہوتا ہے۔ یہ بھی یادرہے کہ ایک سال بعد اس جیسے اتنے چاول کا ریٹ کم یا زیادہ ہو تو اس کا اعتبار نہیں ہے، مثلا 5 مَن چاول لیے کہ جس کی مالیت اُس وقت 60 ہزار روپے تھی، تو اب ایک سال بعد واپس کرتے وقت اگرچہ اتنے چالوں کی قیمت 70 ہزار ہو جائے، تب بھی اتنے ہی چاول واپس کرنے ہوں گے ، ریٹ کی کمی بیشی کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔

کون سی چیز قرض لینا جائز ہے اور کونسی چیز قرض لینا جائز نہیں،اس کے متعلق اصول بیان کرتے ہوئے علامہ ابو المَعَالی بخاری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:616ھ/1219ء) لکھتےہیں:

الأصل فيه أن ما هو من ذوات الأمثال و يكون مضمونا على الغاصب والمستهلك بالمثل استقراضه جائز۔۔۔ نحو المكيلات والموزونات و العدديات المتقاربة،۔۔۔ فيجوز استقراضه، و ما لا يكون من ذوات الأمثال نحو الحيوان واللآلئ والجواهر و الأكارع و الرؤوس لا يجوز استقراضه

ترجمہ: قرض میں اصول یہ ہے کہ وہ چیزیں جو مثلی اشیاء میں سے ہوں، اور جنہیں غصب کرنے یا استعمال کرنے کی صورت میں اسی کی مثل کے ساتھ ضمان لازم آتا ہو، تو پس ایسی چیزوں کا قرض لینا جائز ہے۔ جیسے ناپ کر، تول کر دی جانے والی چیزیں اور (ایسی) عددی چیز جس میں زیادہ تفاوت نہ ہو ۔لیکن وہ چیزیں جو مثلی اشیاء میں سے نہیں جیسے جانور، موتی، ہیرے جواہرات، جانوروں کے پائے (کھر) اور سر وغیرہ، ان کا قرض لینا جائز نہیں۔(المحیط البرھانی، جلد 7، صفحہ 124، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

بہار شریعت میں ہے:جو چیز قرض دی جائے، لی جائے اُس کا مثلی ہونا ضرور ہے یعنی ماپ کی چیز ہویا تول کی ہو یا گنتی کی ہو مگر گنتی کی چیز میں شرط یہ ہے کہ اُس کے افراد میں زیادہ تفاوت نہ ہو، جیسے انڈے، اخروٹ، بادام، اور اگر گنتی کی چیز میں تفاوت زیادہ ہو جس کی وجہ سے قیمت میں اختلاف ہو جیسے آم، امرود، ان کوقرض نہیں دے سکتے۔ یوہیں ہر قیمی چیز جیسے جانور، مکان، زمین، ان کا قرض دینا صحیح نہیں۔(بہار شریعت، حصہ 11، صفحہ 756، مکتبۃ المدینہ کراچی)

قرض میں اس چیز کا مثل ہی واپس کرنا لازم ہوتا ہے، جیسا کہ در مختار میں ہے:

(صح) القرض (فی مثلی) و ھو کل ما یضمن بالمثل عند الاستھلاک (لا فی غیرہ)

ترجمہ:مثلی چیزوں میں قرض صحیح ہے،مثلی کے علاوہ دیگر چیزوں میں نہیں اور مثلی ہر وہ چیز ہے کہ استہلاک کے وقت اس کی مثل سے اس کا ضمان دیا جائے۔ (الدر المختار، صفحہ 429، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

بحر الرائق میں ہے:

القرض مضمون بالمثل

ترجمہ: قرض کا بدلہ اس کے مثل سے دیا جائے گا۔(البحر الرائق، جلد 6، صفحہ 133، دار الکتاب الاسلامی)

چاول کے مثلی ہونے اور اس کوادھار دینے کے متعلق مفتی جلال الدین امجدی رحمۃ اللہ علیہ ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں: ’’صورت مستفسرہ میں پڑوسی سے ایک معین مقدار چاول ادھار لینا جائز ہے یہ اصطلاح شرع میں قرض ہے کیونکہ چاول مثلی شے ہے اور قرض کے لیے مثلی ہونا ضروری ہے۔“ (فتاوی فقیہ ملت،جلد 2، صفحہ 202، مطبوعہ شبیر برادرز لاھور)

قرض میں چیز کی قیمت کے بڑھنے یا کم ہونے کا شرعاً کوئی اعتبار نہیں،جیسا کہ المبسوط للسرخسی میں ہے:

لو قال: أقرضني عشرة دراهم بدينار، فأعطاه عشرة دراهم فعليه مثلها، و لا ينظر إلى غلاء الدراهم، ولا إلى رخصه

ترجمہ: اگر اس نے کہا: مجھے دس درہم ایک دینار کے بدلے قرض دو، تو اس(دوسرے ) نے اسے دس درہم دے دیئے، پس اس پر اسی کی مثل(لوٹانا) لازم ہے، اور دراہم کے مہنگےاور سستے ہونے کی طرف نہیں دیکھا جائے گا۔ (المبسوط للسرخسی، جلد 14، صفحہ 30،دار المعرفہ بیروت)

عقود الدریہ میں ہے:

سئل رجل استقرض من آخر مبلغا من الدراهم وتصرف بها ثم غلا سعرها فهل عليه رد مثلها؟ الجواب نعم ولا ينظر الى غلاء الدراهم و رخصه

 یعنی سوال کیا گیا کہ کسی شخص نے دوسرے سے دراہم کی کچھ مقدار قرض لی اور اس میں تصرف کیا، پھر ان دراہم کی قیمت بڑھ گئی ، تو کیا اس پر اس کا مثل لوٹانا لازم ہے؟ جواب: جی ہاں (مثل کا لوٹانا ہی لازم ہے) اور دراہم کے مہنگے اور سستے ہونے کا اعتبار نہیں۔ (عقود الدریہ فی تنقیح الفتاوی الحامدیۃ، جلد 1، صفحہ 294، مطبوعہ کوئٹہ)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FSD-9500

تاریخ اجراء: 10 ربیع الاول 1447ھ /04ستمبر 2025ء