استعمال کرنے کی شرط پر گروی رکھنا کیسا؟

استعمال کرنے کی شرط کے ساتھ گروی رکھنا کیسا؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ زید نے بکر سے پانچ لاکھ (500000) روپے بطور قرض لیے، اور اپنی ایک ایکڑ زمین اس کے پاس بطور رہن (گروی) رکھی،دونوں کے درمیان یہ طے پایا کہ بکر زید کےقرض لوٹانے تک اس زمین کو کاشت کرے گا اور جب زید قرض واپس کرے گا تو بکر زمین واپس کرے گا، اب اس زمین میں بکر کی کاشت کی ہوئی فصل پک چکی ہے، تو اس کا عشر کس پر لازم ہوگا؟ زید پر یا بکر پر؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

سوال کا جواب جاننے سے پہلے یہ بات جاننا بے حد ضروری ہے کہ شریعت کی رو سےکسی مسلمان کو قرض دے کر اس سے کوئی چیز مثلاً زمین،  مکان، دکان وغیرہ استعمال کرنے کی شرط کےساتھ گروی لینا ہرگز جائز نہیں، مقروض اسے استعمال کرنے کی اجازت دے دےتب بھی قرض کی بنیاد پر اسے استعمال کرنا، جائز نہیں، بلکہ یہ طریقہ سودی طریقہ ہے اور نا جائز و حرام ہے،کیونکہ اس میں قرض دیکراس سے مشروط طور پر نفع اٹھانا پایا جاتا ہے اور قرض پر مشروط نفع لینا سود ہے۔

نیز فقہائےكرام کی تصریحات کے مطابق قرض کے بدلے منفعت کے لئے دی ہوئی زمین رہن نہیں ہوتی، بلکہ یہ اجارہ فاسدہ میں داخل ہوتی ہے، جس کے استعمال کے بدلے اُجرت مثل لازم ہوتی ہے اور ایسے معاملہ کو فوراً ختم کرنا لازم ہوتا ہے، لہٰذا پوچھی گئی صورت میں بکر پر لازم ہے کہ وہ فوراً یہ زمین زید کو واپس کرے اور بکر نے جتنی مدت زمین کو استعمال کیا، اتنے عرصے کا مارکیٹ ویلیو کے مطابق جو واجبی کرایہ بنتا ہے وہ بھی زید کو دے، نیز دونوں پر لازم ہے کہ سودی معاملہ میں گرفتار رہنے کے گناہ سے توبہ بھی کریں اور آئندہ بچتے رہنے کا پختہ ارادہ کریں۔

اور جہاں تک اس زمین میں بکر کی کاشت کی ہوئی فصل کے عشر کاتعلق ہے، تو اس فصل کا عشر بکر پر لازم ہے، کیونکہ شرعاً یہ زمین رہن نہیں، بلکہ بکر کے پاس بطور اجارہ ہے اور مُستَاجَرَہ (اجارہ پر لی ہوئی) زمین کا عُشر مفتیٰ بہ قول کے مطابق مسُتَاجِر (اُجرت پر لینے والے) پر ہوتا ہے۔

رہن رکھی ہوئی چیزسے نفع اٹھانے کے سودہونے کے متعلق مصنف عبد الرزاق میں ہے:

عن ابن سيرين قال:جاء رجل الى ابن مسعود فقال: إن رجلا رهنني فرسا فركبتها قال: ما أصبت من ظهرها فهو ربا

ترجمہ: امام ابن سیرین رضی اللہ عنہ کابیان ہے کہ ایک شخص حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیااورکہاکہ کسی بندےنے مجھے گھوڑا رہن کے طورپردیاتھا، اس پرمیں نے سواری کی، تو حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیاکہ جو تم نے گھوڑے کی سواری سے نفع اٹھایا،وہ سودہے۔ (مصنف عبدالرزاق، جلد 08، صفحہ 245، مطبوعہ مکتبہ اسلامی، بیروت)

علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1252ھ) لکھتے ہیں:

عن عبدﷲ بن محمد بن اسلم السمرقندی و کان من کبارعلماء سمرقندأنہ لایحل لہ ان ینتفع بشی منہ بوجہ من الوجوہ و ان اذن لہ الراھن لانہ اذن لہ فی الربالانہ یستوفی دینہ کاملا فتبقی لہ المنفعۃ فضلافیکون ربا

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن محمد بن اسلم سمرقندی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے، جو سمرقند کے بڑے علماء میں سے ایک تھے کہ مرتہن کو مرہونہ چیز سے کسی طور پر بھی نفع اٹھانا، جائز نہیں، اگرچہ راہن نے اس کی اجازت دی ہو، کیونکہ یہ سُود کی اجازت ہے ، اس لئےکہ مرتہن اپنا قرض پورا وصول کرتا ہے اور منفعت اسے اضافی ملتی ہے، لہٰذایہ منفعت سود ہے۔ (رد المحتار علی در مختار، کتاب الرھن، جلد 06، صفحہ 482، مطبوعہ دار الفكر بيروت)

اعلیٰ حضرت، امامِ اہلِ سُنَّت، امام اَحْمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1340ھ / 1921ء) لکھتے ہیں: ”رہن میں کسی طرح کے نفع کی شرط بلاشبہ حرام اور خالص سود ہے ،بلکہ اِن دیارمیں مرتہن کامرہون سے انتفاع بلاشرط بھی حقیقۃً بحکمِ عرف انتفاع بالشرط ربائے محض ہے۔ (فتاویٰ رضویہ، جلد 25، صفحہ 57، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

قرض پر مشروط نفع لینا سودہے، چنانچہ کنز العمال کی حدیثِ پاک میں ہے:

عن علی رضی اللہ عنہ، قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم: کل قرض جر منفعۃ فھو ربا

ترجمہ: حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: ہروہ قرض جو نفع کھینچ لائے، وہ سود ہے۔ (کنزالعمال، جلد 6، صفحه 238، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت)

سود کی حرمت کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:

﴿اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰو﴾

ترجمہ کنز العرفان: اللہ پاک نے خرید وفروخت کو حلال کیا اور سود کو حرام کیا۔ (القرآن الکریم، پارہ 03، سورۃ البقرہ، آیت نمبر 275)

صحیح مسلم کی حدیثِ پاک میں ہے:

عن جابر رضی اللہ عنہ ،قال:لعن رسول اﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم اٰکل الرباو موکلہ و کاتبہ و شاھدیہ و قال: ھم سواء

ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، اسے لکھنے والے اور اس کی گواہی دینے والوں پر لعنت فرمائی اور ارشاد فرمایا: یہ سب گناہ میں برابر ہیں۔ (صحیح مسلم، کتاب البیوع، صفحہ 620، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

مذکورہ صورت میں قرض کے بدلے بطور منفعت زمین لینااجارہ فاسدہ میں داخل ہے، چنانچہ علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1252ھ) لکھتے ہیں:

مسألة يجب التنبيه عليها لكثرة وقوعها في زماننا و قل من يعرفها وهي ما في الفصل الثالث من الخلاصة رجل استقرض دراهم من رجل فقال له اسكن في حانوتي فما لم أرد عليك دراهمك لا أطالبك بأجرة الحانوت و الأجر الذي يجب عليك هبة فدفع المقرض إليه ألف درهم وسكن الحانوت مدة۔۔۔ الصحيح أنه يجب أجر المثل و في الكبرى قال فخر الدين و عليه الفتوى و وجه لزوم الأجرة مع التصريح بإسقاطها أن المستقرض لم يسكنه في داره إلا بمقابلة منفعة القرض و ذلك لا يصلح عوضا فيجب أجر المثل،لأنه إجارة فاسدة ۔۔۔فاحفظ هذه المسألة فإنها مهمة

ترجمہ: ایک مسئلہ جس سے آگاہ ہونا بہت ضروری ہے، یہ ہمارے زمانے میں کثرت سے پیش آتا ہے، لیکن بہت کم لوگ اس سے آشنا ہیں، "خلاصہ" کی فصل ثالث میں ہے کہ ایک شخص نے کسی سے دراہم قرض لیےاور اس سے کہا تم میری دکان میں رہائش اختیار کرلو،جب تک میں تمہارے دراہم نہیں لوٹاتا، اس وقت تک میں تم سے اجرت نہیں مانگوں گا، جتنی اجرت تم پر بنےوہ تمہارے لیے تحفہ ہے، لہٰذا قرض خواہ نے اسے ایک ہزار  دراہم دے دیئے اور دکان میں ایک عرصے تک رہائش اختیار کرلی۔۔۔ صحیح یہ ہے کہ مذکورہ صورت میں اجرت مثل لازم ہے، "کبریٰ" میں ہے: امام فخر الدین رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اسی پر فتوی ہے۔ صراحتاً اجارہ ساقط کردینے کے باوجود یہاں اجارہ اس وجہ سے لازم ہےکہ قرض دار اپنے مکان میں قرض خواہ کو مفت رہائش نہیں دے رہا، بلکہ قرض کی منفعت کے بدلے دے رہا ہے اور یہ عوض بننے کی صلاحیت نہیں رکھتا،لہٰذا اجرت مثل لازم ہوگی، کیونکہ یہ اجارہ فاسدہ ہے۔۔۔ اسے یاد کرلو یہ بہت اہم مسئلہ ہے۔ (العقو د الدریہ، جلد 02، صفحہ 194، مطبوعہ کراچی، ملتقطاً)

یونہی فتاوٰی قاضی خان، فتاوٰی عالمگیری، فتاوٰی تتارخانیہ، محیط برہانی اور ردالمحتار علی درمختار وغیرہم کتب فقہیہ میں ہے۔

اسی طرح کے سوال کے جواب میں مفتی محمد نور اللہ نعیمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1403ھ / 1982ء) لکھتے ہیں: ”ہمارے حضرات فقہائے کرام نے ایسی صورتوں کو اجارہ فاسدہ کے مرتبہ میں قرار دیا ہے کہ اگر نفع اٹھائے، تو اجر لازم اور رہن نہ ہوگا، الحاصل اجرت مثل دے کر جان چھڑائے۔“ (فتاوی نوریہ، جلد 04، صفحہ 190، مطبوعہ دار العلوم حنفیہ، بصیرپور)

اجارے والی زمین پر عشر کے بارے میں نہرالفائق میں ہے:

اجرارضه فالعشر على المؤجر عنده و قالاعلى المستاجر

ترجمہ: کسی نے اپنی زمین اجارے پردی، تو امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک عشرمالک زمین پر ہوگا اور صاحبین رحمہما اللہ تعالیٰ کے نزدیک کاشت کار پر ہوگا۔ (نھر الفائق، کتاب الزکاۃ، باب العشر، جلد 1، صفحہ 455، مطبوعہ کراچی)

مذکورہ اختلاف کو بیان کرنے کے بعد علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ ارشادفرماتےہیں:

فلا ینبغی العدول عن الافتاء بقولھما فی ذلک

ترجمہ: اس معاملےمیں صاحبین کےقول سےعدول کرنامناسب نہیں ہے۔ (رد المحتار، جلد 2، صفحہ 334،دار الفکر بیروت)

اسی بارےمیں اعلیٰ حضرترَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1340ھ / 1921ء) لکھتے ہیں: ”صاحبین کامذہب یہ ہےکہ عشرصرف کاشت کار پر ہے، اس پرفتوٰی دینےمیں کوئی حرج نہیں، بلکہ ان ملکوں میں جہاں اجرت نقدی ٹھہری ہوتی ہے،وہاں اسی پرفتوی ہوناچاہیے۔ (فتاوی رضویہ، جلد 10، صفحہ 203، رضافاؤنڈیشن، لاھور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: OKR-0057

تاریخ اجراء: 25 صفر المظفر 1447 ھ / 20 اگست 2025ء