قرض کے بدلے خریدی گئی جگہ کا کرایہ لینا سود ہے؟

سود کا ایک مسئلہ

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میرے دوست کو مکان خریدنے کے لیے 4 لاکھ روپے کی ضرورت ہے۔ وہ مجھ سے یہ رقم بطور قرض مانگ رہا ہے۔ اس نے مجھے یہ آفر کی ہے کہ مکان خریدنے کے بعد جب تک میری مکمل رقم واپس نہیں کردیتا اس مکان کا نصف کرایہ مجھےدیتا رہے گا۔ یہ فرمائیں کہ کیا اس شرط کے ساتھ قرض کا لین دین کرنا جائز ہے؟

(سائل: محمد ندیم سولجر بازار، کراچی)

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

آپ جو رقم دیں گے وہ قرض ہے اور کرائے کی مَد میں حاصل ہونے والی رقم اس قرض پرمشروط نفع ہے اور ہر وہ قرض جو نفع لائے اسے نبیِّ پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ و اٰلہٖ و سلَّم نے سود قرار دیا ہے۔ لہٰذا پوچھی گئی صورت سودی مُعاہدہ ہونے کی وجہ سے ناجائز، حرام اور جہنّم میں لےجانے والا کام ہے ہرگز ہرگز اس اشدّ گناہ والے مُعاہدہ سے دور رہیں دوست کو بھی سمجھائیں کہ وہ اپنے ارادہ سے باز آئے۔

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی فضیل رضا عطاری

تاریخ اجراء: ماہنامہ فیضان مدینہ فروری / مارچ 2019ء