
دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
پرائیویٹ بینک سے جو لون ملتا ہے، وہ ایک لاکھ کے بدلے ایک لاکھ بیس ہزار لیتے ہیں، مجبوری کے وقت وہ لون لینا جائز ہے یا ناجائز ؟ میری بہن کی شادی ہے۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
سودی قرض لینے سے متعلق شریعت مطہرہ کاحکم یہ ہے کہ بینک یا کسی بھی ادارے سے یوں قرض لینا کہ جتنا لیا ہے اس سے زائد اگرچہ ایک پیسا اوپر دینا طے پائے یہ سود اور حرام ہے اور بلا عذر شرعی سود پر قرض لینا سخت ناجائز وحرام ہے اورشادی کوئی شرعی مجبوری نہیں ہے۔ لہذاشادی کے لیے سودی قرض لیناجائزنہیں ہے، پس یا تویہ کوشش کی جائے کہ کسی سے بغیر سود کےقرضہ مل جائے یا پھر اگر آپ کے پاس حاجت سے زائد کوئی چیز ہے تو اس کو بیچ کر اپنی ضرورت پوری کر لیں اوراگران میں سے کچھ بھی نہیں ہوسکتا تو سادگی کے ساتھ شادی کی جائے۔ شادی کے لئے کثیر اخرجات کرنا نہ فرض ہے نہ لازم بلکہ بعض صورتوں میں گناہ جیسے گانے باجے اور ناجائز رسموں پر خرچ کرنا۔ تو شریعت کے مطابق اور سادگی سے شادی کریں جس کے لئے کثیر مال ہونا کوئی ضروری نہیں بلکہ حدیث پاک کے مطابق تو عظیم برکت والا نکاح اسے قرار دیا گیا ہے کہ جس میں خرچہ کم ہو۔
صحیح مسلم شریف کی حدیث ِمبارکہ ہے
”عن جابر قال: لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٰکل الربا وموکلہ وکاتبہ و شاھدیہ وقال ھم سواء“
ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، فرماتے ہیں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے سود کھانے والے، سودکھلانے والے، سود لکھنے والے اور سودکے گواہوں پر لعنت فرمائی ہےاور فرمایا کہ وہ سب(گناہ میں) برابر ہے۔ (صحیح مسلم، جلد3، صفحہ 1219، حدیث: 1598، دار احیاء التراث العربی، بیروت)
مشکوۃ المصابیح میں حدیث پاک ہے
”عن عائشة قالت: قال النبي صلى الله عليه وسلم: إن أعظم النكاح بركة أيسره مؤنة“
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے فرماتی ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عظیم برکت والا نکاح وہ ہے جس میں خرچہ کم ہو۔ (مشکاۃ المصابیح، جلد3، صفحہ930، حدیث: 3097، المکتب الاسلامی، بیروت)
فتاوی رضویہ میں ہے”اقول: محتاج کے یہ معنی جو واقعی حقیقی ضرورت قابل قبول شرع رکھتا ہو کہ نہ اس کے بغیر چارہ ہو نہ کسی طرح بے سودی روپیہ ملنے کا یارا ورنہ ہر گز جائز نہ ہوگا جیسے لوگوں میں رائج ہے کہ اولاد کی شادی کرنی چاہی سو روپے پاس ہیں ہزار روپے لگانے کو جی چاہا نو سو سودی نکلوائے یا مکان رہنے کو موجود ہے دل پکے محل کو ہوا سودی قرض لے کر بنایا یا سو دوسو کی تجارت کرتے ہیں قوت اہل وعیال بقدر کفایت ملتا ہے نفس نے بڑا سوداگر بننا چاہا پانچ چھ سو سودی نکلوا کر لگا دئے یا گھر میں زیور وغیرہ موجود ہے جسے بیچ کر روپیہ حاصل کرسکتے ہیں نہ بیچا بلکہ سودی قرض لیا وعلی ہذا القیاس صدہا صورتیں ہیں کہ یہ ضرورتیں نہیں تو ان میں حکم جواز نہیں ہوسکتا اگرچہ لوگ اپنے زعم میں ضرورت سمجھیں۔“ (فتاوی رضویہ، جلد17، صفحہ 299، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
ایک اور مقام پر فرمایا: ”فاتحہ سوم یا لڑکی کی شادی کے لئے سودی قرض لینا حرام ہے۔“ (فتاوی رضویہ، جلد17، صفحہ 347، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا اعظم عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-4189
تاریخ اجراء: 14ربیع الاول1447 ھ/08ستمبر 2520 ء