
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
ایک شخص نے دس بوری گندم ادھا ر لی ہے اور مالک کو کہا کہ ایک سال بعد جو میری فصل اترے گی تو اس وقت دس بوری واپس کردوں گا تو کیا یہ جائز ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
جی ہاں! گندم کو قرض دینا اور لینا جائز ہے کہ گندم مثلی چیز ہے۔ البتہ! یہ ضروری ہے کہ جتنی گندم لی، واپسی بھی اتنی اور ویسی ہی گندم دینا طے پائے۔ ہاں بعد میں دینے والا اپنی مرضی سے بغیر شرط کے اس سے زیادہ یا بہتر دے دے تو جائز ہے۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں دس بوری گندم ادھار لے کر واپس دس بوری گندم دینا جائز ہے۔ اور اگر ایک سال بعد اس جیسی اتنی گندم کا ریٹ کم یا زیادہ ہو تو اس کا اعتبار نہیں ہے مثلا دس بوری گندم قرض لی ، جس کی مالیت اس وقت دس ہزار روپے تھی، تو اب ایک سال بعد واپس کرتے وقت اسی کوالٹی کی اتنی گندم کی قیمت اگرچہ بارہ ہزار روپےہو جائے تب بھی وہی اور اتنی ہی گندم واپس کرنی ہو گی، ریٹ کی کمی بیشی کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔
در مختار میں ہے
(صح) القرض (فی مثلی) وھو کل ما یضمن بالمثل عند الاستھلاک(لا فی غیرہ)
ترجمہ: مثلی چیزوں میں قرض صحیح ہے، مثلی کے علاوہ دیگر چیزوں میں نہیں ۔ اور مثلی ہر وہ چیز ہے کہ استہلاک کے وقت اس کی مثل سے اس کا ضمان دیا جائے۔ (الدر المختار، صفحہ 429، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
البحر الرائق میں ہے
القرض مضمون بالمثل
ترجمہ: قرض کا بدلہ اس کے مثل سے دیا جائے گا۔ (البحر الرائق، جلد 6، صفحہ 133، دار الکتاب الاسلامی)
فتاوی عالمگیری میں ہے
لو استقرض من آخر حنطة فاعطى مثلها بعدما تغير سعرها فانه يجبر المقرِض على القبول
ترجمہ: اگر کسی نے دوسرے شخص سے گندم قرض لی اورمقروض نے ویسی ہی گندم واپس کردی لیکن واپسی کے وقت گندم کا نرخ تبدیل ہوچکا تھا تو قرض خواہ کو گندم قبول کرنے پر مجبور کیاجائے گا۔ (الفتاوی الھندیۃ، جلد 3، صفحہ 202، دارالفکر، بیروت)
در مختار میں ہے
کان علیہ مثل ما قبض فان قضاہ اجود بلا شرط جاز
ترجمہ: مقروض پر اس کی مثل دینا واجب ہے جو اس نے لیا تھا۔ پس اگر بغیر شرط کے اجود (یعنی بہتر ) لوٹاتا ہے تو جائز ہے۔ (الدر المختار، صفحہ 430، دارالکتب العلمیۃ، بیروت)
بہارشریعت میں ہے "واپسی قرض میں اُس چیزکی مثل دینی ہوگی،جولی ہے نہ اُس سے بہتر نہ کمتر، ہاں! اگر بہتر ادا کرتا ہے اوراس کی شرط نہ تھی، تو جائزہے۔ یوہیں جتنا لیا ہے ادا کے وقت اُس سے زیادہ دیتا ہے مگر اس کی شرط نہ تھی یہ بھی جائز ہے۔" (بہار شریعت، جلد 2، حصہ 11، صفحہ 759، مکتبۃ المدینۃ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا احمد سلیم عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-4115
تاریخ اجراء: 17 صفر المظفر 1447ھ / 12 اگست 2025ء