
کیا یہ حدیث ہے کہ وہ مؤمن نہیں جو خود پیٹ بھر کر کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا ہو ؟
سوال: میں نے اسکول کی اسلامیات کی کتاب میں ایک حدیث ِپاک پڑھی تھا جس کا مفہوم یہ ہے :”وہ شخص مومن نہیں ہوسکتا جس کے پڑوسی بھوکے سوئیں اور وہ پیٹ بھر کر کھانا کھا کر سوئے“ سوال یہ ہے کہ یہ یا اس سے ملتے جلتے الفاظ کتبِ حدیث میں ملتے ہیں یا نہیں ؟اور اگر یہ حدیث پاک ہے، تو اس کی شرح کیا ہے؟
کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نور ہیں؟
سوال: کیاحضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نورہیں؟قرآن وحدیث کی روشنی میں بیان فرمائیں۔نیز یہ کہ زید کا کہنا ہے کہ جس حدیثِ جابر سے آپ لوگ استدلال کرتے ہیں ،وہ روایت معنی کے اعتبار سے درست نہیں ، کیونکہ اس میں فرمایاگیا:”نور نبیک من نورہ“ تویہاں حرف ”مِنْ “ تبعیضیہ ہے ،جس کا مفہوم یہ ہے کہ کسی چیز سے اس کا کوئی جزیا کچھ حصہ لینا،جدا کر لینا، جیساکہ کہا جاتا ہے : ’’خلق الانسان من طین‘‘ یعنی انسان کو مٹی سے پیدا کیا گیا، تو انسان کے اندر مٹی کا جز شامل ہے، تو اس لحاظ سے حدیث کا مطلب یہ ہو گاکہ اللہ کے نور سے کچھ حصہ جدا کر کے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نور پیدا کیا گیا ، جو قطعاً درست نہیں ،بلکہ کفر ہے، لہٰذا اس حدیث کو دلیل بنانا درست نہیں۔کیا زید کا یہ اعتراض درست ہے؟اگر نہیں تو اس کا جواب عنایت فرمائیں۔
اے ابن آدم ایک تیری چاہت ہے ایک میری چاہت ہے - حدیث قدسی کا حوالہ
سوال: ایک بات سنی ہے کہ اللہ عزوجل فرماتاہے”اے بندےتوجوچاہتاہےوہی کرتاہے اور میں جو چاہتاہوں ہوتاوہی ہے تو اےبندےتو کروہ جو میں چاہتاہوں ہوگاوہ جو توچاہتاہے“سوال یہ ہے کہ یہ مقولہ ہے یاحدیث قدسی ہے؟
مومن مسجد میں ایسے ہے ، جیسے مچھلی پانی میں اور منافق ایسے کہ جیسے پرندہ پنجرے میں کیا یہ حدیث ہے ؟
سوال: ہم نے یہ مثال بارہاسنی ہے کہ’’المومن فی المسجدکالسمک فی الماء والمنافق فی المسجد کالطیرفی القفص ‘‘ یعنی مومن مسجدمیں ایسے خوش ہوتاہے جیسے مچھلی پانی میں خوش رہتی ہے اور منافق ایسے ہوتاہے جیسے پرندہ پنجرے میں ہوتاہے ۔ کیا یہ الفاظ حدیث پاک میں واردہوئے ہیں ؟مجھے کسی نے بتایاتھاکہ یہ حدیث کے الفاظ نہیں ہیں ۔ برائےکرم اس حوالے سے رہنمائی فرمادیں۔
حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے متعلق پیٹ نہ بھرنے والی روایت کی وضاحت
سوال: بعض لوگ اِس حدیث شریف کو لے کر شانِ سیدنا امیرِ معاویہ رضی الله عنہ کو گھٹا رہےہیں،کہ آقا ﷺ نے آپ رضی الله عنہ کو بددعا دی۔حدیث یہ ہے۔ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى الْعَنَزِيُّ ح و حَدَّثَنَا ابْنُ بَشَّارٍ وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى قَالَا حَدَّثَنَا أُمَيَّةُ بْنُ خَالِدٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ الْقَصَّابِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كُنْتُ أَلْعَبُ مَعَ الصِّبْيَانِ فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَوَارَيْتُ خَلْفَ بَابٍ قَالَ فَجَاءَ فَحَطَأَنِي حَطْأَةً وَقَالَ اذْهَبْ وَادْعُ لِي مُعَاوِيَةَ قَالَ فَجِئْتُ فَقُلْتُ هُوَ يَأْكُلُ قَالَ ثُمَّ قَالَ لِيَ اذْهَبْ فَادْعُ لِي مُعَاوِيَةَ قَالَ فَجِئْتُ فَقُلْتُ هُوَ يَأْكُلُ فَقَالَ لَا أَشْبَعَ اللَّهُ بَطْنَهُ ۔"ترجمہ:محمد بن مثنیٰ عنزی اور ابن بشار نے ہمیں حدیث بیان کی ۔ ۔ الفاظ ابن مثنیٰ کے ہیں ۔ ۔ دونوں نے کہا : ہمیں امیہ بن خالد نے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا : ہمیں شعبہ نے ابوحمزہ قصاب سے حدیث بیان کی ، انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ، کہا : میں لڑکوں کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے ، میں دروازے کے پیچھے چھپ گیا ، کہا : آپ آئے اور میرے دونوں شانوں کے درمیان اپنے کھلے ہاتھ سے ہلکی سی ضرب لگائی ( مقصود پیار کا اظہار تھا ) اور فرمایا : جاؤ ، میرے لیے معاویہ کو بلا لاؤ ۔ میں نے آپ سے آ کر کہا : وہ کھانا کھا رہے ہیں ۔ آپ نے دوبارہ مجھ سے فرمایا : جاؤ ، معاویہ کو بلا لاؤ ۔ میں نے پھر آ کر کہا : وہ کھانا کھا رہے ہیں ، تو آپ نے فرمایا : اللہ اس کا پیٹ نہ بھرے ۔ (Sahih Muslim#6628)
حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ تعالی عنہ پراعتراض کا جواب
سوال: کچھ لوگ کہتےہیں کہ حضورعلیہ الصلاۃ والسلام نے حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کےلیےبددعاکی ہے،ایسا حدیث میں موجودہے۔کیایہ بات درست ہے؟
تم نذر نہ مانو کیونکہ نذر سے تقدیر کو نہیں بدلا جاسکتا اس حدیث کا مطلب
سوال: میں نے ایک حدیث سنی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کا فرمان ہے:” تم نذر نہ مانو کیونکہ نذر سے تقدیر کو نہیں بدلا جاسکتا اس کے ذریعے تو صرف بخیل ہی سے مال نکلوایا جاتا ہے۔“( صحیح مسلم حدیث نمبر 4241 )۔ اس حدیث کا کیا مطلب ہے ؟ اور نذر کیا چیز ہے؟
قربانی واجب ہے یا سنت؟ ایک اعتراض کا جواب
سوال: (1) قربانی واجب ہے؟ اس کے واجب ہونے کی دلائل کیا ہیں؟ (2) ایک شخص کا کہنا ہے کہ قربانی واجب نہیں، بلکہ سنت ہے، کیونکہ ایک تو اسے حدیث پاک میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت کہا گیا ہے اور دوسرا یہ ہے کہ حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما قربانی ادا نہیں کرتے تھے تاکہ لوگ اسے واجب نہ سمجھ لیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سنت ہے، برائے کرم ان کے متعلق رہنمائی کر دیجئے۔
سلام میں ’’وبرکاتہ‘‘کے بعد’’و مغفرتہ‘‘بھی کہنا چاہیے یا نہیں ؟
جواب: حدیث کی روشنی میں تینوں روایات کے محدثین نے جوابات دیے ہیں۔ پہلی روایت اور اُس کا جواب: (1)ابو داؤد شریف میں ہے:’’ثم أتى آخر، فقال: السلام عليكم ور...