
مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:FAM-689
تاریخ اجراء:10 رمضان المبارک 1446 ھ/11 مارچ 2025 ء
دار الافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اذان سے پہلے درود شریف پڑھنا کیسا ہے؟ قرآن و حدیث سے دلائل کے ساتھ جواب عطا فرمائیں۔ نیز دور رسالت و دور صحابہ میں تو اذان سے پہلے درود شریف نہیں پڑھا جاتا تھا، مگر اب پڑھا جارہا ہے، تو کیا یہ بدعت نہیں ہوگا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
اذان و اقامت سے پہلے درود شریف پڑھنا بالکل جائز بلکہ مستحب یعنی ایک اچھا عمل ہے۔ قرآن کریم میں اللہ عزوجل نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و سلم پر درود پاک پڑھنے کے حکم میں کوئی قید بیان نہیں فرمائی کہ فلاں وقت پڑھو اورفلاں وقت نہ پڑھو، بلکہ مطلق بغیر کسی قید کے درود شریف پڑھنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے، لہذا اذان سے پہلے، اذان کے بعد، اقامت سے پہلے، اقامت کے بعد جب چاہیں درود شریف پڑھ سکتے ہیں، شرعاً اس کی کوئی ممانعت نہیں۔ رہا یہ اشکال کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے حیاتِ ظاہری اور خلفائے راشدین علیہم الرضوان کے دور مبارک میں تو اذان سے پہلے دُرُودشریف نہیں پڑھا جاتا تھا، اور اب یہ پڑھا جارہا ہے، تو اذان سے پہلے درود پاک پڑھنے کا یہ عمل تو بدعت اور گناہ ہوگا؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ اولاً: اگریہ قاعِدہ تسلیم کرلیاجائے کہ جوکام بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی حیات ظاہری اور خلفائے راشدین کے دور مبارکہ میں نہیں ہوتاتھا، اب اسے قائم کرنابُری بدعت اورگناہ ہے توپھر فی زمانہ دنیا کا سارا نظام دَرہم برہم ہو کر رہ جائیگا۔ بے شمار ایسی چیزیں ہیں کہ جو اُس مُبارَک دور میں نہیں ہوتی تھیں، مگر اب ان کوسب نے اپنایا ہواہے، جیسےقرآن پاک پرنقطے اور اِعراب پہلے نہیں تھے، قرآن پاک کی چھپائی، مسجدکے درمیان میں طاق نمُا محراب ،چھ کلمے،علم صَرف ونَحو، درسِ نظامی،ہوائی جہاز کے ذریعے سفرِحج اور اس کے علاوہ سینکڑوں کام اس مبارک دَورمیں نہیں تھے،اور اب ہیں لیکن اُنہیں کوئی گناہ و برانہیں کہتا تو پھراذان واقامت سے پہلےدرود شریف پڑھنا ہی کیوں بُری بدعت اورگناہ ہوگا؟
ثانیاً: کسی چیز کا دور رسالت و دور صحابہ میں نہ ہونا اس کے ناجائز ہونے کیلئے دلیل نہیں ہوتا، بلکہ ممانعت کا اصل مدار قرآن و حدیث میں اس کی حرمت کے ثابت ہونے پر ہے، لہٰذا جس کام کو اللہ و رسول عزوجل وصلی اللہ علیہ و سلم نے منع فرمایا ہے تو وہ کام ناجائز ہے اور جس کام سے منع نہیں فرمایا ہے، تو وہ کام شرعاً جائز ہے اگرچہ وہ دور رسالت و دور صحابہ میں موجود نہ ہو۔
ثالثاً:بدعت کی دو قسمیں ہیں:ایک بدعت حسنہ یعنی وہ نیا کام جو قرآن و سنت کے خلاف نہ ہو اور دوسری بدعت سیئہ یعنی وہ نیا کام جو قرآن و سنت کے خلاف ہو ۔احادیث مبارکہ میں جو بدعت کی مذمت بیان کی گئی ہے وہاں بدعت سے مُراد یہی بُری بدعت ہے، ورنہ اچھی بدعت تو باعث ثواب ہے۔ لہذا کسی عمل کا مطلقاً بدعت ہونا بھی اس کے ناجائز ہونے کی دلیل نہیں ہوگا، بلکہ بدعت وہ ممنوع ہے کہ جو شریعت اسلامیہ کے کسی اصول سے ٹکرانے والی ہو یا سنت کو ختم کرنے والی ہو۔ اذان سے پہلے درود شریف پڑھنا اسلام کے کسی اصول سے ٹکرانے والا ،یا کسی سنت کو ختم کرنے والا عمل نہیں ہے بلکہ یہ ایک اچھا طریقہ ہے اور اسلام میں اچھا طریقہ کہ جو شریعت و سنت کے خلاف نہ ہو، اُسے ایجادکرنے کی تو خود حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ترغیب ارشادفرمائی ہے اور ایجاد کرنے والے کو اس پر عمل کرنے والوں کی مثل ثواب کی بشارت دی گئی ہے، چنانچہ ایک حدیث میں ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے مسلمانوں میں کوئی نیک طریقہ جاری کیا اور اسکے بعد اس طریقے پر عمل کیا گیا، تو اس طریقے پر عمل کرنے والوں کا اجر بھی اس جاری کرنے والے کے نامۂ اعمال میں لکھا جائے گا اور عمل کرنے والوں کے اَجر میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔
درود پاک پڑھنے سے متعلق قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہے: ﴿اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں ۔ اے ایمان والو!ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔ (القرآن، پارہ 22، سورۃ الاحزاب: 56)
اس آیت کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے: ’’اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے درود و سلام پڑھنے کے لئے کسی وقت اور خاص حالت مثلاً کھڑے ہوکر یابیٹھ کر پڑھنے کی قیدنہیں لگائی چنانچہ کھڑے ہوکریابیٹھ کر، جہاں چاہے، جس طرح چاہے، نمازسے قبل یابعد، یونہی اذان سے پہلے یا بعدجب چاہے درودِ پاک پڑھناجائزہے۔‘‘ (تفسیر صراط الجنان، جلد 8، صفحہ 85، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
اذان کے بعد درود پڑھنے کی تو حدیث مبارکہ میں تر غیب موجود ہے، چنانچہ صحیح مسلم شریف کی حدیث مبارکہ ہے: ’’عن عبد الله بن عمرو بن العاص، أنه سمع النبي صلى الله عليه و سلم يقول: «إذا سمعتم المؤذن، فقولوا مثل ما يقول ثم صلوا علي، فإنه من صلى علي صلاة صلى الله عليه بها عشرا، ثم سلوا الله لي الوسيلة، فإنها منزلة في الجنة، لا تنبغي إلا لعبد من عباد الله، و أرجو أن أكون أنا هو، فمن سأل لي الوسيلة حلت له الشفاعة‘‘ ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا: جب تم مؤذن کو سنو تو ویسا ہی کہو جیسا وہ کہتا ہے، پھر مجھ پر درود بھیجو کیونکہ جو مجھ پر ایک بار درود بھیجتا ہے، اللہ عزوجل اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ پھر اللہ سے میرے لیے وسیلہ مانگو، کیونکہ وہ جنت میں ایک ایسا مقام ہے جو صرف اللہ کے ایک بندے کے لیے مخصوص ہوگا، اور مجھے امید ہے کہ وہ میں ہوں گا۔ پس جس نے میرے لیے وسیلہ مانگا، اس کے لیے میری شفاعت واجب ہو گئی۔ (صحیح مسلم، جلد 1، صفحہ 288، رقم الحدیث: 11 - (384)، دار إحياء التراث العربي، بيروت)
مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں ارشاد فرماتے ہیں: ’’اس سے معلوم ہوا کہ اذان کے بعد درود شریف پڑھناسنت ہے، بعض مؤذن اذان سے پہلے ہی درود شریف پڑھ لیتے ہیں اس میں بھی حرج نہیں، ان کا ماخذ یہ ہی حدیث ہے۔ شامی نے فرمایا کہ اقامت کے وقت درود شریف پڑھناسنت ہے۔ خیال رہے کہ اذان سے پہلے یا بعد بلند آواز سے درود پڑھنا بھی جائز بلکہ ثواب ہے،بلاوجہ اسے منع نہیں کہہ سکتے۔‘‘ (مراۃ المناجیح، جلد 1، صفحہ 402، نعیمی کتب خانہ، گجرات)
جس کام کی شریعت میں ممانعت نہ آئی ہو وہ مباح و جائز ہوتاہے، چنانچہ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے: ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْــٴَـلُوْا عَنْ اَشْیَآءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْۚ- وَ اِنْ تَسْــٴَـلُوْا عَنْهَا حِیْنَ یُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَ لَكُمْؕ- عَفَا اللّٰهُ عَنْهَاؕ- وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ﴾ترجمہ کنزالعرفان :اے ایمان والو! ایسی باتیں نہ پوچھو جو تم پر ظاہر کی جائیں تو تمہیں بری لگیں اور اگر تم انہیں اس وقت پوچھو گے جبکہ قرآن نازل کیا جارہا ہے تو تم پروہ چیزیں ظاہر کردی جائیں گی اور اللہ ان کو معاف کرچکا ہے اور اللہ بخشنے والا ،حلم والا ہے۔(القرآن، پارہ 7، سورۃ المائدۃ: 101)
تفسیر صراط الجنان میں ہے: ’’حلت و حرمت کا اہم اصول: اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جس امر کی شریعت میں ممانعت نہ آئی ہو وہ مباح و جائز ہے۔ حضرت سلمان رَضِیَ اللہُ تَعَالیٰ عَنْہُ سے مروی حدیث میں ہے، رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ ’’حلال وہ ہے جو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنی کتاب میں حلال فرمایا اورحرام وہ ہے جس کو اُس نے اپنی کتاب میں حرام فرمایا اور جس سے سکوت کیا تووہ معاف ہے۔ (ترمذی، کتاب اللباس، باب ما جاء فی لبس الفراء، ۳ / ۲۸۰، الحدیث: ۱۷۳۲)‘‘ (تفسیر صراط الجنان، جلد 3، صفحہ 39، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
اسلام میں کوئی نیا نیک طریقہ ایجاد کرنے والے کی فضیلت سے متعلق صحيح مسلم کی حدیث مبارکہ ہے: ’’قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: من سن في الإسلام سنة حسنة، فعمل بها بعده، كتب له مثل أجر من عمل بها، ولا ينقص من أجورهم شيء، و من سن في الإسلام سنة سيئة، فعمل بها بعده، كتب عليه مثل وزر من عمل بها، و لا ينقص من أوزارهم شيء‘‘ ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اسلام میں کوئی نیک طریقہ جاری کیا اور اس پر اس کے بعد عمل کیا گیا، تو اس کے لیے اس پر عمل کرنے والوں کے جتنا ثواب لکھا جائے گا، اوراُن( عمل کرنے والوں) کے اجر میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔ اور جس نے اسلام میں کوئی برا طریقہ جاری کیا اور اس پر اس کے بعد عمل کیا گیا، تو اس کیلئے اس پرعمل کرنے والوں کے جتنا گناہ لکھا جائے گا جتنا اس پر ہوگا، اور ان کے گناہ میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔(صحیح مسلم، جلد 4، صفحہ 2059، رقم الحدیث: 15 - (1017)، دار احیاء التراث العربی، بیروت)
ممنوع بدعت سے مراد وہ بدعت ہے جو شریعت اسلامیہ کے خلاف ہو، چنانچہ فتح الباری میں ہے: ’’قال الشافعي البدعة بدعتان محمودة و مذمومة فما وافق السنة فهو محمود وما خالفها فهو مذموم۔۔۔ و جاء عن الشافعي أيضا ما أخرجه البيهقي في مناقبه قال المحدثات ضربان ما أحدث يخالف كتابا أو سنة أو أثرا أو إجماعا فهذه بدعة الضلال و ما أحدث من الخير لا يخالف شيئا من ذلك فهذه محدثة غير مذمومة‘‘ ترجمہ: امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا:بدعت کی دو قسمیں ہیں: محمودہ (تعریف کے لائق) اور مذمومہ (مذمت کے لائق)۔ جو چیز سنت کے موافق ہو، وہ محمود (قابلِ تعریف) ہے، اور جو اس کے مخالف ہو، وہ مذموم (قابلِ مذمت) ہے۔ اسی طرح امام شافعی سے ایک اور قول جو امام بیہقی نے ان کے مناقب میں نقل کیا ہے، جس میں فرمایا: نئی پیدا کی گئی چیزیں (محدثات) دو قسم کی ہوتی ہیں :جو نئی ایجاد کردہ چیزکتاب (قرآن)، سنت(حدیث)، اثر (صحابہ کا قول یا عمل) یا اجماع کے خلاف ہو، تو وہ گمراہی والی بدعت ہے۔ اور جو اچھی ایجاد کردہ چیز جو ان میں سے کسی چیز کے خلاف نہ ہو، تو وہ نئی پیدا کردہ چیز قابلِ مذمت نہیں۔ (فتح الباری، جلد 13، صفحہ 253، دار المعرفة، بيروت)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم