کیا ہر بدعت گمراہی ہے؟ حدیث کی وضاحت

بدعت کے متعلق تفصیل

مجیب: ابو شاہد مولانا محمد ماجد علی مدنی

فتوی نمبر: WAT-3788

تاریخ اجراء: 01 ذولقعدۃ الحرام 1446 ھ/29 اپریل 2025 ء

دار الافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

ایک صاحب نے ایک  حدیث مبارکہ پیش کی ہے جس میں  لکھا ہے کہ "ہر بدعت گمراہی ہے" برائے کرم اس بارے میں تفصیل کے ساتھ رہنمائی فرما دیجئے کہ کیا واقعی ہر بدعت گمراہی ہوتی ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

حدیث پاک کے اس حصے" ہر بدعت گمراہی ہے "سے مطلقا ہر بدعت مراد نہیں، بلکہ مراد "بدعت سیئہ" ہے جو سنت کو مٹانے والی ہو، تو اب اس روایت کا مطلب یہ ہوگاکہ: "ہر بدعت سیئہ گمراہی ہے۔" تفصیل اس کی یہ ہے کہ:

وہ کام جو نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد ظاہر ہوا وہ "بدعت" کہلاتا ہے پھر جو کا م اصول دین  کے موافق اور کتاب و سنت کے مطابق ہو اور کتاب و سنت پر قیاس کیا گیا ہو  وہ "بدعت حسنہ" کہلاتا ہے اور جو ان اصول و قواعد کے خلاف ہو اسے "بدعتِ سیئہ اوربدعت ضلالہ" کہتے ہیں۔ اور

"کل بدعۃ ضلالۃ"

کا کلیہ اس دوسری قسم کے ساتھ خاص ہے۔

مرقاۃ  شرح مشکوۃ میں ہے:

(و كل بدعة ضلالة) أي: كل بدعة سيئة ضلالة لقوله عليه الصلاة و السلام: "من سن في الإسلام سنة حسنة فله أجرها و أجر من عمل بها". و جمع أبو بكر و عمر القرآن، و كتبه زيد في المصحف، و جدد في عهد عثمان رضي الله عنهم،ملتقطاً"

ترجمہ: ہر بدعت گمراہی ہے، یعنی ہر بری بدعت گمراہی ہے کیونکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: "جس نے اسلام میں اچھا طریقہ جاری کیا اس کے لیے اس کا ثواب ہے اور اس پر عمل کرنے والے کا بھی ثواب ہے"۔ اور حضرت ابوبکر صدیق اور عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہما نے قران پاک جمع کیا، اور حضرت زید  رضی اللہ تعالی عنہ نے مصحف شریف میں اس کو لکھا اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے میں اس کی تجدید کی گئی۔ (مرقاۃ المفاتیح، ج1 ، ص 223، دار الفکر، بیروت)

"کل بدعۃ ضلالۃ"

 والی حدیث پاک کے تحت شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں: ”(ترجمہ) معلوم ہونا چاہیے کہ جو کچھ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد نکلا اور ظاہر ہوا بدعت کہلاتا ہے، پھر اس میں سے جو کچھ اصول کے موافق اور قواعد سنّت کے مطابق ہو اور کتاب و سنّت پر قیاس کیا گیا ہو "بدعتِ حسنہ "کہلاتا ہے اور جو ان اصول و قواعد کے خلاف ہو اسے "بدعتِ ضلالت" کہتے ہیں۔ اور

"کل بدعۃ ضلالۃ"

کا کلیہ اس دوسری قسم کے ساتھ خاص ہے۔“ (اشعۃ اللمعات شرح مشکوٰۃ(مترجم)، ج 1، ص 422، فرید بک سٹال، لاہور)

مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کی شرح بیان کرتے ہوئے  فرماتے ہیں:”مُحْدَثْ کے معنٰے ہیں جدید اور نوپید چیز،یہاں وہ عقائد یا برے اعمال مراد ہیں جو حضور کی وفات کے بعد دین میں پیدا کیے جائیں۔بدعت کے لغوی معنٰے ہیں نئی چیز،رب فرماتا ہے:

(بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ)۔

اصطلاح میں اس کے تین معنٰے ہیں: (۱) نئے عقیدے اسے بدعت اعتقادی کہتے ہیں۔ (۲) وہ نئے اعمال جو قرآن و حدیث کے خلاف ہوں اور حضور کے بعد ایجاد ہوں۔ (۳) ہر نیا عمل جو حضور کے بعد ایجاد ہوا۔ پہلے دو معنٰے سے ہر بدعت بری ہے کوئی اچھی نہیں، تیسرے  معنی کے لحاظ سے بعض بدعتیں اچھی ہیں بعض بری، یہاں  بدعت کے پہلے معنی مراد  ہیں  یعنی برے عقیدے، کیونکہ حضور نے اسے ضلالت یعنی گمراہی فرمایا۔ گمراہی عقیدے سے ہوتی ہےعمل سے نہیں، بے نمازی گنہگار ہے گمراہ نہیں، اور رب کو جھوٹایاحضورکو اپنی مثل بشرسمجھنا بدعقیدگی اور گمراہی ہے، اور اگر دوسرے معنی مراد ہوں تب بھی یہ حدیث اپنے اطلاق پر ہے کسی قید لگانے کی ضرورت نہیں، اور اگرتیسرےمعنی مراد ہوں یعنی نیا کام تو یہ حدیث عام مخصوص البعض ہے کیونکہ یہ بدعت دوقسم کی ہے: بدعت حسنہ اور سیئہ۔ یہاں بدعت سیئہ مراد ہے ۔۔۔ جو اسلام میں اچھا طریقہ ایجاد کرے وہ بڑے ثواب کا مستحق ہے، بدعت حسنہ کبھی جائز، کبھی واجب، کبھی فرض ہوتی ہے۔ اس کی نہایت نفیس تحقیق اسی جگہ مرقاۃ اور اشعۃ اللمعات میں دیکھو، نیز شامی اور  ہماری کتاب "جاء الحق" میں بھی ملاحظہ کرو۔ بعض لوگ اس کے معنی یہ کرتے ہیں کہ جو کام حضور کے بعد ایجاد ہو وہ بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی، مگر یہ معنی بالکل فاسد ہیں، کیونکہ تمام دینی چیزیں، چھ کلمے، قرآن شریف کے ۳۰ پارے، علم حدیث اور حدیث کی اقسام اور کتب، شریعت وطریقت کے چار سلسلے، حنفی، شافعی، یا قادری، چشتی وغیرہ، زبان سے نماز کی نیت، ہوائی جہاز کے ذریعہ حج کا سفر اور جدیدسائنسی ہتھیاروں سے جہاد وغیرہ، اور دنیا کی تمام چیزیں پلاؤ، زردے، ڈاک خانہ، ریلوے وغیرہ سب بدعتیں ہیں جوحضور کے بعدایجاد ہوئیں حرام ہونی چاہئیں حالانکہ انہیں کوئی حرام نہیں کہتا۔“ (مرآۃ المناجیح، ج 1، ص 146 ،147، نعیمی کتب خانہ، گجرات)“

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم