ربیع الاوّل کی مبارکباد دینے کا حکم

کیا ربیع الاوّل کی مبارکباد د ینے سے جنت واجب ہو جاتی ہے؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان ِ شرع ِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ربیع الاول کی آمد سے متعلق یہ روایت بیان کی جا رہی ہےکہ جس نے سب سے پہلے کسی کو ربیع الاول کی مبارک دی، اس پر جنت واجب ہو جائے گی۔ کیا ایسی کوئی روایت موجود ہے اور کیا اسے شیئر کر سکتے ہیں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

ربیع الاوّل کی آمد کی خوشی منانا اور چرچا کرنا بہت اعلیٰ اور مستحسن عمل ہے کہ اس ماہِ مبارک میں اللہ عز و جل نے نبی آخر الزماں صلی اللہ تعالی علیہ و الہ و سلم کو اس دنیا میں مبعوث فرما کر مؤمنین پر احسان فرمایا۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ و الہ و سلم کی تشریف آوری یقیناً مسلمانوں کے لیے نعمتِ عظمی ہےاور نعمت کا چرچا کرنے کے متعلق اللہ عز و جل قرآنِ عظیم میں ارشاد فرماتا ہے:

﴿ وَ اَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ﴾

ترجمہ: اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو۔ (پارہ 30، سورۃ الضحی، آیت 11)

لیکن جہاں تک سوال میں مذکور روایت کا تعلق ہے، تو ایسی کوئی روایت نظر سے نہیں گزری، نہ علماء سے سُنی، بلکہ ایسی باتیں عموماً مَن گھڑت ہوا کرتی ہیں اور مَن گھڑت بات حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ و الہ و سلم کی طرف قصداً منسوب کرنا حرام ہے، حدیثِ مبارک میں اس پر سخت وعید ارشاد فرمائی گئی ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری ومسلم میں حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے: نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ و الہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّاْ مَقْعَدَہٗ مِنَ النَّارِ

ترجمہ: جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھا، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔ (صحیح البخاری، کتاب العلم، باب اثم من کذب علی النبی صلی اللہ علیہ و سلم، جلد 1، صفحہ 21، مطبوعہ کراچی)

اور بغیر تحقیق و تصدیق ہر سنی سنائی بات کو آگے پھیلانا بھی نہیں چاہئے، کیونکہ حدیثِ پاک میں ایسے شخص کو جھوٹا فرمایا گیا ہے۔چنانچہ مسلم شریف کی حدیث میں ہے:

کَفٰی بِالْمَرْء ِکَذِبًا اَنْ یُّحَدِّثَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ

ترجمہ: انسان کے جھوٹا ہونے کو یہی کافی ہے کہ ہر سُنی سنائی بات بیان کر دے۔ (الصحیح للمسلم، باب النھی عن الحدیث بکل ما سمع، جلد 1، صفحہ 9، مطبوعہ کراچی)

لہٰذا ایسی روایات پر مشتمل میسجز(Messages) اور پوسٹس(Posts) شیئر کرنے سے بچنا بہت ضروری ہے۔

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتویٰ نمبر: Pin-4893

تاریخ اجراء: 02 صفر المظفر 1438ھ / 03 نومبر 2016ء