
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
بہارِ شریعت کے اس مسئلہ کی وضاحت فرما دیں کہ مسئلہ ۱۲: مرد نے عورت سے جماع کیا اوراس سے اولاد نہیں ہوئی مگر دودھ اتر آیا تو جو بچہ یہ دودھ پیے گا، عورت اس کی ماں ہو جائے گی مگر شوہر اس کا باپ نہیں، لہٰذا شوہر کی اولاد جو دوسری بی بی سے ہے اس سے اس کا نکاح ہوسکتا ہے۔
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
مذکورہ مسئلے میں شوہر اس بچے کا باپ اس لئے نہیں ہے کیونکہ بچے نے جو دودھ پیا وہ عورت کو اس شوہر کے سبب سے نہیں آیا، تو جب وہ اس کا باپ نہیں تو اس شخص کی اولاد جو کہ پہلی بیوی سے ہوئی تھی اس سے بھی دودھ پینے والے بچے کا کوئی رشتہ قائم نہیں ہوا، لہٰذا اس سے نکاح ہوسکتاہے۔
مزید وضاحت یہ ہے کہ عموماً دودھ تب آتا ہے جب مرد ہمبستری کرے اور پھر بچہ بھی پیدا ہوجائے، تو دودھ چونکہ اس شوہر کے سبب پیدا ہوا تو یہ دودھ پینے والا بچہ اس شوہر کی طرف بھی منسوب ہوگا اور یہ اس بچے کا رضاعی باپ بن جائے گا ، لیکن اگر اس شوہر سے بچہ نہیں ہوا تو دودھ اس کے سبب سے نہیں ہے اور جب دودھ اس سے نہیں ہے تو بچہ بھی اس کی طرف منسوب نہیں ہوگا (جیسے نادراً کبھی باکرہ یعنی کنواری کو بھی دودھ آسکتا ہے حالانکہ اس سے کسی نے ہمبستری نہیں کی،پھر اگر کوئی بچہ مدت رضاعت میں اس کا دودھ پی لے تو وہ عورت اس کی رضاعی ماں بن جائے گی مگر رضاعی باپ کوئی نہیں ہوگا۔)
علامہ خسرو رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
يثبت بالرضاع كون المرضعة أما للرضيع و كون زوجها أباً له اذا كان لبنها منه حتى اذا لم يكن لبنها منه بأن تزوجت ذات لبن رجلاً فأرضعت به صبياً فإنه لا يكون ولداً له من الرضاع۔۔۔ و یکون ولداً للزوج الأول ما لم تلد من الثانی،فاذا ولدت منہ فأرضعت صبیاً فھو ولد الثانی بالاتفاق لأن اللبن منہ۔ (ملتقطاً)۔
یعنی رضاعت سے دودھ پلانے والی کا دودھ پینے والے کی ماں ہوجانا اور اس عورت کے شوہر کا دودھ پینے والے کا باپ ہوجانا ثابت ہوجاتا ہے جبکہ عورت کا دودھ اس شوہر سے ہو حتیٰ کہ اگر عورت کا دودھ اس شوہر سے نہ ہو جیسا کہ دودھ والی عورت کسی شخص سے نکاح کرے، پھر وہ عورت کسی بچے کو دودھ پلا دے تو وہ بچہ اِس دوسرے شوہر کا رضاعی بیٹا نہیں ہوگا۔۔۔ (بلکہ)وہ پہلے شوہر کا بیٹا ہوگا جب تک عورت کی دوسرے شوہر سے اولاد نہ ہوجائے، تو جب اس عورت کی دوسرے شوہر سے اولاد ہوجائے پھر وہ کسی بچے کو دودھ پلا دے تو وہ بچہ بالاتفاق دوسرے شوہر کا بیٹا ہوگا کیونکہ دودھ اس (دوسرے شوہر)کا تھا۔ (ملتقطاً)۔ (درر الحکام شرح غرر الاحکام، ج 2، ص 137، ملتقطاً، کوئٹہ)
بہار شریعت میں ہے: ’’پہلے شوہر سے عورت کی اولاد ہوئی اور دودھ موجود تھا کہ دوسرے سے نکاح ہوا اور کسی بچہ نے دودھ پیا، توپہلا شوہر اس کا باپ ہوگا دوسرا نہیں اور جب دوسرے شوہر سے اولاد ہوگئی تو اب پہلے شوہر کا دودھ نہیں بلکہ دوسرے کا ہے اورجب تک دوسرے سے اولاد نہ ہوئی اگرچہ حمل ہو پہلے ہی شوہر کا دودھ ہے دوسرے کا نہیں۔“ (بہار شریعت، ج 2، ص 38، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
بحر الرائق میں خانیہ کے حوالے سے ہے:
لو أرضعت البكر صبياً صارت أما للصبی
یعنی اگر باکرہ نے بچے کو دودھ پلا دیا تو وہ بچے کی ماں ہوگئی۔ (البحر الرائق، ج 3، ص 398، کوئٹہ)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد کفیل رضا عطاری مدنی
فتوی نمبر: Web-2300
تاریخ اجراء: 26ذوالقعدۃ الحرام1446ھ /24مئی2025ء