
ایک معروف کمپنی کی تجارتی ڈیل کا شرعی حکم
سوال: ایک مینوفیکچر کمپنی کیش پر کام کرتی ہے ، ادھار پر کام نہیں کرتی جبکہ ایک معروف سپر اسٹور کو ادھار پر سامان کی حاجت ہے ، اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے ان دونوں نے درج ذیل طریقہ اختیار کیا ہے : ایک شخص بطورِ ڈسٹری بیوٹر مینوفیکچر کمپنی سے مال خرید کر ثمن ادا کر کے قبضہ کر لیتا ہے (مینوفیکچر کمپنی کی طرف سے ڈسٹری بیوٹر پر کوئی شرطِ فاسد نہیں لگائی گئی) پھر ڈسٹری بیوٹر مینوفیکچر کمپنی ہی کو اپنا وکیلِ مطلق بنادیتا ہے کہ مینوفیکچر کمپنی جسے چاہے یہ مال فروخت کر دے۔ پھر مینوفیکچر کمپنی بحیثیتِ وکیل اپنے مؤکل (ڈسٹری بیوٹر) کے مال کو مثلاً تین ماہ کے ادھار پر سپر اسٹور کو فروخت کر دیتی ہے ، تین ماہ گزر جانے کے بعد سپر اسٹور سے وکیل کو پیمنٹ موصول ہوتی ہے جسے وصول کرنے کے بعد وکیل (مینوفیکچر کمپنی) اپنے مؤکل (ڈسٹری بیوٹر) کو پہنچا دیتی۔ آپ سے پوچھنا یہ ہے کہ(1)کیا مذکورہ طریقۂ کار شرعی طور پر جائز ہے ؟ (2)نیز اس میں خدانخواستہ سپراسٹور کا نقصان ہوگیا یا دیوالیہ ہوگیا اورسپر اسٹور وکیل کو رقم لوٹانے سے عاجز آ جاتا ہے ، رقم ادا نہیں کرتا تو یہ نقصان کون برداشت کرے گا ؟ وکیل (مینو فیکچر کمپنی) یا مؤکل (ڈسٹری بیوٹر) ؟
کام آنے کی نیت سے رکھے ہوئے سامان پر زکوٰۃ کا حکم
سوال: میرا ساؤنڈ سسٹم کا کام ہے،جسے کرائے پردیتے ہیں ،اس میں ہم کچھ سامان اضافی رکھتے ہیں کہ اگر ہمیں کبھی ضرورت ہوئی تو استعمال کریں گے،لیکن وہ سامان سال میں ایک آدھ مرتبہ استعمال ہوتاہے اورکبھی سال سے بھی زائد عرصے تک استعما ل نہیں ہوتا،مگر اس کو اس نیت سے رکھا ہوا ہے کہ یہ ایمرجنسی یا ضرورت پڑنے پر کام آسکے، توکیا اس اضافی سامان پر زکوۃ ہوگی ؟
جواب: سامان دینے کے متعلق در مختار میں ہے” لو أطعم يتيما ناويا الزكاة لا يجزيه إلا إذا دفع إليه المطعوم كما لو كساه بشرط أن يعقل القبض“ترجمہ:اگرکسی نے زکوٰۃ...
کیاقرض دی ہوئی رقم واپس ملنے پر گزشتہ سالوں کی زکوۃ ادا کرنا ہوگی؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید نے بکر کو 5 لاکھ روپے قرض دیا ،اب بکر نے زید کووہ رقم 5 سال کے بعد واپس کردی ہے تو کیا اب زید پر ان پانچ سالوں کی زکوۃ لازم ہوگی یا نہیں ؟اس کےبارے میں رہنمائی فرمادیں ۔جزاک اللہ نوٹ:زید پر قرض نہیں ہے ،زیدکے پاس قرض دینے سے پہلے بھی روپے جمع تھے اور وہ صاحب نصاب تھا اور اس کا سال شعبان میں مکمل ہوتا ہے ۔ سائل:رفاقت علی عطاری (چھانگا مانگا)
دکان بیچتے ہوئے گڈ ول کے پیسے الگ سے لیناکیسا ؟
سوال: ایک شخص دکان بیچ رہا ہےاور وہ کہہ رہا ہےکہ چونکہ یہاں میری دکان کافی عرصہ سے تھی اور جمی جمائی دکان ہے اس لئے میں گڈول ( Goodwill ) کے الگ سے پیسے لوں گا۔ کیا یہ شخص سودے میں یوں گڈول کے الگ سے پیسے مانگ سکتا ہے ؟
چلتے کاروبار میں فی پیس کے حساب سے نفع طے کرنے کا حکم اور اس کا متبادل جائز طریقہ
جواب: سامان خرید کر اس پر قبضہ کرلے پھر اس سامان کو اپنا نفع (Profit) رکھ کر مثلاً ڈھائی لاکھ ریال کا زید کو ایک متعین مدت مثلا ً چھ ماہ کے لئے ادھار پر ...
سودی قرض میں ڈوبے ہوئے شخص کو زکوٰۃ دینا کیسا ؟
سوال: زید نے کاروباری معاملات چلانے کے لئے بہت سارا سودی قرضہ لیا ہو ا ہے۔اب کارو باری نقصان کی وجہ سے اتنا زیادہ سودی قرضہ چڑھ گیا ہے کہ زید کی ملکیت میں جتنا بھی سامان ہے وہ سارا قرض میں دے دیا جائے، تو زید کا سودی قرض نہیں اتارا جا سکتا۔ پوچھنا یہ ہے کہ زید کو زکوۃ دے سکتے ہیں یا نہیں ؟شرعی رہنمائی فرما دیں۔
شوہر کا زکوٰۃ لے کر اپنی بیوی کی زکوٰۃ ادا کرنا
سوال: ایک شخص خود شرعی فقیر اور مقروض ہے۔ کچھ سالوں پہلے اس کی بیوی پر زکوۃ دینا لازم تھی۔ کسی وجوہات یا کم علمی کی وجہ سے وہ دے نہ سکی۔ اب کیا اس کے شوہر کو کوئی زکوٰۃ دے اور وہ زکوٰۃ لے کر مالک ہونے کے بعد اپنی بیوی کو وہ رقم دے کہ تم اس سے اپنی سابقہ سالوں کی زکوۃ ادا کردو تو یہ ٹھیک ہوگا؟ کیونکہ وہ خود شرعی فقیر ہے اور وہ شخص زکوٰۃ مانگتا بھی نہیں بلکہ نامناسب سمجھتا ہے کہ کوئی اسے زکوۃ دے، لیکن اگر کوئی دے دے، تو لے بھی لے گا۔ کیا اسے اگر کوئی زکوۃ دے ،تو یہ لے کر مالک بننے کے بعد بیوی کا وکیل یا کفیل ہونے کی حیثیت سے اس کی زکوۃ میں وہ رقم ادا کرسکتا ہے؟
زکوۃ کے وکیل کا اپنی بیوی کو زکوۃ دینا
سوال: زید اپنے مستحق رشتہ داروں کے لیے اغنیاء اور مالداروں سے زکوۃ وصول کرتا ہے، اور مستحق رشتہ داروں تک پہنچاتا ہے، اور اس میں سے کچھ حصہ اپنی مستحق زکوۃ بیوی کو بھی دیتا ہے ۔کیا بیوی کو اس طرح زکوۃ دینے سے زکوۃ ادا ہوجائے گی ؟
چیز پر قبضہ کیے بغیر آگے بیچنا کیسا؟
سوال: (1)مارکیٹ میں خرید و فروخت کا ایک طریقہ یہ پایا جاتا ہے کہ کوئی گاہک دکان پر آ کر کسی چیز کو خریدنا چاہتا ہے اور دکاندار کے پاس وہ مال ابھی موجود نہیں ہوتا، تو وہ گاہک کو مال کا نمونہ (Sample)دکھا کر اسے مخصوص مقدار میں وہ مال بیچ دیتا ہے اور پھر کسی دوسرے دکاندار کہ جس کے پاس وہ چیز موجود ہوتی ہے، اُسے کہہ دیتا ہے کہ میرے فلاں گاہک کو وہ چیز اتنی مقدار میں دے دو اور جب گاہک وہ چیز لے لیتا ہے ،تو پہلا دکاندار اس چیز کا ریٹ وغیرہ معلوم کر کے دوسرے دکاندار کو رقم کی ادائیگی کر دیتا ہے، یعنی پہلا دکاندار چیز خریدنے سے پہلے ہی گاہک کو بیچ چکا ہوتا ہے، کیا یہ طریقہ شرعا درست ہے؟ (2)اور اگر اس طریقے سے چیز کو بیچ دیا جائے کہ پہلا دکاندار دوسرے سے کوئی چیز خرید لے اور اس کے بعد اپنے گاہک کو بیچے اور دوسرے دکاندار کو کہہ دے کہ میں نے آپ سے جو چیز خریدی ہے، وہ آگے بیچ دی ہے، لہذا آپ ڈائریکٹ میرے گاہک کو ہی وہ چیز ڈیلیور کر دیں، تو ایسا کرنا کیسا؟ (3)اگر یہ طریقے درست نہیں، تو کیا انداز اختیار کیا جا سکتا ہے، جو شرعاً درست ہو؟