سودی قرض میں ڈوبے ہوئے شخص کو زکوٰۃ دینے کا حکم

 

سودی قرض میں ڈوبے ہوئے شخص کو زکوٰۃ دینا کیسا ؟

مجیب:مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Gul-2874

تاریخ اجراء:29شوال المکرم 1444ھ/20مئی 2023 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ زید نے  کاروباری معاملات چلانے کے لئے بہت سارا سودی قرضہ لیا ہو ا ہے۔اب کارو باری نقصان کی وجہ سے اتنا زیادہ سودی قرضہ چڑھ گیا ہے  کہ  زید کی ملکیت میں جتنا بھی سامان ہے وہ سارا  قرض میں دے دیا جائے، تو زید کا سودی قرض نہیں اتارا جا سکتا۔ پوچھنا یہ ہے کہ  زید کو  زکوۃ دے سکتے ہیں  یا نہیں ؟شرعی رہنمائی فرما دیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   سودی لین دین کرنا، ناجائز و گناہ اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے، لہٰذا سودی لین دین سے توبہ و استغفار کرنا لازم و ضروری ہے،البتہ جس شخص پر اتنا قرض ہو کہ اُسے ادا کرنے کے بعد اپنی حاجاتِ اصلیہ کے علاوہ نصاب کا مالک نہ رہےاور وہ  سید یا ہاشمی بھی  نہ ہو تو ایسے مقروض شخص کو زکوۃ دی جاسکتی ہے، لہٰذا پوچھی گئی صورت میں سودی قرض میں ڈوبے ہوئے شخص ، زیدکوزکوۃ دینا جائزہے جبکہ زکوۃ دینے والا، زکوۃ لینے والے کے  اصول وفروع میں سے نہ ہو۔

   قرآن پاک میں سود کی حرمت پر اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:﴿اَلَّذِیۡنَ یَاۡکُلُوۡنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوۡمُوۡنَ اِلَّا کَمَا یَقُوۡمُ الَّذِیۡ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیۡطٰنُ مِنَ الْمَسِّ ؕذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ قَالُوۡۤا اِنَّمَا الْبَیۡعُ مِثْلُ الرِّبٰواۘ ﴾ ترجمہ کنزالایمان:وہ جو سود کھاتے ہیں،  قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط بنادیاہو۔ یہ اس لئے کہ انہوں نے کہا بیع بھی تو سود ہی کے مانند ہے ۔(پارہ3، سورۃ بقرہ، آیت275 )

   اس آیت کی تفسیر میں مفتی نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ تعالی علیہ سود کی قباحت کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:”اس آیت میں سود کی حرمت اور سود خوروں کی شامت کا بیان ہے ۔ سود کو حرام فرمانے میں بہت حکمتیں ہیں ۔ بعض ان میں سے یہ ہیں کہ سود میں جو زیادتی لی جاتی ہے وہ معاوضہ مالیہ میں ایک مقدار مال کا بغیر بدل و عوض کے لینا ہے یہ صریح ناانصافی ہے۔“(تفسیر خزائن العرفان ،صفحہ96، مکتبۃ المدینہ)

   مصارف زکوٰۃ کے بارے اللہ عزوجل ارشادفرماتاہے:﴿اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَالْمَسٰکِیۡنِ وَ الْعٰمِلِیۡنَ عَلَیۡہَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوۡبُہُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِیۡنَ وَفِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ وَابْنِ السَّبِیۡلِ ؕفَرِیۡضَۃً مِّنَ اللہِ ؕ وَاللہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ ﴾ترجمہ کنزالایمان : زکوٰۃ تو اِنہیں لوگوں کے لئے ہے  ، محتاج اور نرے نادار اور جو اسے تحصیل کرکے لائیں اور جن کے دلوں کو اسلام سے الفت دی جائے اور گردنیں چھڑانے میں اور قرضداروں کو اور اللہ کی راہ میں اور مسافر کو ۔ یہ ٹھہرایا ہوا ہے اللہ  کا اور اللہ  علم و حکمت والا ہے۔(پارہ10 ، سورۃ التوبہ،آیت60)

   الدر المختار مع ردالمحتار میں ہے:”(ومديون لا يملك نصابا فاضلا عن دينه) الدفع للمديون اولى منه للفقير ای اولى من الدفع للفقير الغير المديون لزيادة احتياجه“ترجمہ: مصارف زکوۃ میں سے ایک مقروض بھی ہے  (اس سے مراد وہ شخص ہے جوقرض کے علاوہ نصاب کامالک نہ ہو)مقروض کودینامحض فقیرکودینے سے بہتر ہے یعنی ایسا فقیرجومقروض نہیں اس کی نسبت مقروض فقیر کودینازیادہ فضیلت  والاہے کہ یہ زیادہ ضرورت مندہے۔ (الدر المختار وردالمحتار،جلد2،صفحہ343،دارالمعرفۃ،بیروت)

   امام اہل سنت اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:جس پر اتنا دین ہو کہ اُسے ادا کرنے کے بعد اپنی حاجاتِ اصلیہ کے علاوہ چھپن روپے کے مال کا مالک نہ رہے گا اور وہ ہاشمی نہ ہو، نہ یہ زکوٰۃ دینے والا اس کے اولاد میں ہو، نہ باہم زوج و زوجہ ہوں، اسے زکوٰۃ دینا بیشک جائز بلکہ      فقیر کو دینے سے افضل۔  ہر فقیر کو چھپن روپے دفعۃًنہ دینا چاہئیں،اور مدیون پر چھپن ہزار دین ہو تو زکوٰۃ کے چھپن ہزار ایک ساتھ دے سکتے ہیں۔“(فتاوی رضویہ،جلد10، صفحہ250، رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

   فتاوی رضویہ شریف میں  ایک سوال ہوا :”زید نے اپنے برادرِ حقیقی یا بہنوئی یا بہن یا کسی دوست کو اپنی ضمانت سے مبلغ پچاس50روپیہ سُودی قرض دلادئیے۔  اب وُہ روپیہ اصل وسُود مل کر سو روپیہ ہوگئے، زید نے وُہ روپے اپنی زکوٰۃ کے روپے سے ادا کردئیے مگر شخص مذکور سے یہ نہیں کہا کہ روپیہ زکوٰۃ کا ہم نے تمھارے قرضہ میں دیا ، کیونکہ اگر اُس سے کہا جائیگا تو وُہ شخص بوجہ برادری کے زکوٰۃ لینا پسند نہیں کرتا۔ اس صورت میں زید سےزکوٰۃ  ادا ہوگیا یا نہیں؟“ اس کے جواب میں امام اہل سنت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:” اگر زید نے وُ ہ روپیہ اپنے اس عزیز کو دل میں نیّتِ زکوٰۃ کرکے دیا تو زکوٰۃ ادا ہوگئی ، خواہ کسی خرچ میں صرف کرے اور اگر بطور خودبلا اجازت اس کے قرضہ میں دیا تو زکوٰۃ ادا نہ ہوگی، وا ﷲ تعالیٰ اعلم۔(فتاوی رضویہ، جلد10، صفحہ 73-74، مطبوعہ رضا فاونڈیشن، لاھور)

   سودی قرض میں ڈوبے ہوئے، مقروض شخص کوزکوۃ دینے کے متعلق فتاوی اہل سنت ”احکام زکوۃ “ میں ہے:”یہ سودی لین دین کا وبال ہے،ا ب تک کئے گئے سودی لین دین سے فورا توبہ کریں۔سود لینا اور دینا دونوں حرام اور جہنم میں لے کر جانے والا کام ہے۔۔۔نیز آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر آپ کی یہی حالت ہے اور آپ پر علاوہ سود کی مد میں دینے کے اتنا قرض ہے کہ ادا کرنے کی صورت میں نصاب کی مقدار مال آپ کی ملکیت میں نہیں رہےگا، تو آپ مستحق ِزکوۃ ہیں اور زکوۃ لے سکتے ہیں۔(ملتقطاازفتاوی اھل سنت،کتاب الزکوۃ،صفحہ466،467،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم