
دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلےکےبارے میں کہ ایک جگہ کسی کہنے والے کو سنا کہ ”جب تمباکو اور نسوار حلال ہے، تو الکوحل والا مشروب پینا کیوں حرام ہے؟ کیونکہ اصل حرام چیز شراب ہے، جبکہ فی زمانہ ”الکوحل“ہے اور الکوحل شراب نہیں ہوتی۔ ہم بہت سی چیزوں میں الکوحل استعمال کرتے ہیں، تو جب اُس کا استعمال جائز ہے، تو اُس کا معمولی مقدار میں پینا بھی جائز ہے، جب تک دماغ پر اثر نہ پڑے۔ “ کیا یہ گفتگو کرنے والا اپنی جگہ درست ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
الکوحل کا نشہ آور ہونا کسی سے مخفی نہیں ہے۔ سائنسی اور طبی تحقیقات واضح طور پر بتاتی ہیں کہ اِس کی مختلف اقسام ایسی ہیں کہ جو نشہ آور ہیں اور نشہ پیدا کرنے والی مشروبات کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بڑی وضاحت سے ارشاد فرمایا کہ ’’جس کی زیادہ مقدار نشہ پیدا کرے، تو اُس کی تھوڑی مقدار پینا بھی حرام ہے۔‘‘ یونہی ایک دوسرے مقام پر فرمایا: ’’میں تمہیں ہر نشہ آور چیز سے روکتا ہوں۔‘‘ لہذا اِن فرامینِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بنیاد بناکر فساق و فجار اور آوارہ طبیعت لوگوں کا راستہ بند کرنے کے لیے فقہ حنفی کے جلیل القدر فقیہ امام محمد رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فتوی دیا کہ ہر نشہ آور مائع چیز کا ایک قطرہ پینا بھی گناہ اور حرام ہے۔ ائمہ ثلاثہ اور فقہائے احناف کی بڑی تعداد ہمیشہ اِسی کے مطابق فتویٰ دیتی رہی ہے۔ البتہ کچھ عرصہ قبل ماہرینِ فقہ نے مختلف قوانینِ شریعت کو سامنے رکھتے ہوئے اور امت کو حرج سے بچانے کے لیے مخصوص شرائط کے ساتھ الکوحل آمیز ادویات کی اجازت کا فتوی دیا۔ اِن ادویات کے علاوہ الکوحل کے خوردنی استعمال کے متعلق اصل حکمِ شرعی وہی ہے، جسے صدیوں قبل امام محمد رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے بیان فرمایا اور تواتر سے فقہائے اسلام نقل کرتے آئے۔
اب معاذ اللہ ! فی زمانہ کوئی شخص اِن نشہ آور مشروبات ،مثلاً: الکوحل کو لہو ولعب اور عیاشی کے نام پر پینے کو جائز کہے، تو وہ یقیناً شیطان کا بہکایا ہوا اور نفس پرستی میں مبتلا ہے اور اگر کوئی علم کا دعویدار ہو کر ایسی بات کہے،تو اُس کی مثال اُسی گدھے جیسی ہے، جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
﴿ مَثَلُ الَّذِیْنَ حُمِّلُوا التَّوْرٰىةَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوْهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ اَسْفَارًا﴾
ترجمہ:جن پر تورات کا بوجھ رکھا گیا پھر انہوں نے اس کا بوجھ نہ اٹھایا، اُن لوگوں کی مثال گدھے کی مثال جیسی ہے جو کتابیں اٹھائے ہو۔ (پ 28، الجمعۃ: 05)اور پھر آج کے زمانے میں عیاشی کے نام پر الکوحل پینے کے جائز ہونے کی بات کرنا، حالانکہ گمراہوں اور گمراہ کرنے والوں کی پہلے ہی کمی نہیں، فساق وفجار کی بیٹھکیں آباد ہیں اور لوگ دین سے بیزار ہیں، نِری جہالت ، حماقت اور فتنے کا دروازہ کھولنے کے مترادف ہے ۔ اِسی لیے فقہائے دین نے فرمایا:
’’إن من يجهل أهل زمانه فهو جاهل‘‘
ترجمہ:جو شخص اپنے زمانے والوں کے مزاج سے بے خبر ہو، وہ جاہل ہے۔ (درر الحكام فی شرح مجلة الأحكام، جلد 04، صفحہ 618، مطبوعہ دار الجیل)
نشہ آور مشروبات کے متعلق احادیث:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’ما أسكر كثيره فقليله حرام‘‘
ترجمہ:جس نشہ آور مشروب کی زیادہ مقدار نشہ پیدا کرے، اُس کی تھوڑی مقدار بھی حرام ہے۔(مسندِ احمد، جلد 19، صفحۃ 150، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ)
”مؤطا امام مالک“ میں ہے:
’’كل شراب أسكر فهو حرام‘‘
ترجمہ:ہر وہ مشروب جو نشہ پیدا کرے، وہ حرام ہے۔(مؤطا امام مالک بروایۃ محمد الشیبانی، صفحۃ 248، مطبوعہ المکتبۃ العلمیۃ)
سندِ صحیح کے ساتھ ” مسند احمد “ میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’ أنهاكم عن كل مسكر ‘‘
ترجمہ:میں تمہیں ہر نشہ آور مشروب سے روکتا ہوں۔ (مسندِ احمد، جلد 32، صفحۃ 416، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ)
امام محمد رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا فتوی:
”تنویر الابصار ودرالمختار“ کی مشترکہ عبارت ہے:
’’(حرمها محمد) أي الأشربة المتخذة من العسل والتين ونحوهما قاله المصنف (مطلقا) قليلها وكثيرها (وبه يفتى) ذكره الزيلعي وغيره؛ واختاره شارح الوهبانية‘‘
ترجمہ: امام محمدرَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نےشہد،انجیر سے بنے ہوئے اِس کے علاوہ دیگر نشہ آور مشروبات کو بھی مطلقاً حرام قرار دیا، خواہ تھوڑی مقدار ہو یا زیادہ۔ یہی قول مفتیٰ بہ ہے۔ اِسی کو امام زیلعی اور دیگر فقہائےاحناف نے ذکر فرمایا،نیز اِسی کو شارح ”الوھبانیۃ“ نے اختیار فرمایا۔(جو اُن کی کتاب ”تفصیل عقد الفرائد“ میں موجود ہے۔)(تنویر الابصار ودرالمختار مع ردالمحتار ، جلد 22،کتاب الأشربۃ، صفحہ 285، مطبوعہ دمشق)
”وغیرہ“ کے تحت علامہ شامی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اُن تمام محققینِ احناف کے نام لکھے، پھر مجموعی طور پر اُن کی مفتیٰ بہا عبارت کو ذکر کیااور پھر اِس مسئلہ کی علت بیان فرمائی،چنانچہ لکھا:
’’كصاحب الملتقى والمواهب والكفاية والنهاية والمعراج وشرح المجمع وشرح درر البحار والقهستاني والعيني، حيث قالوا الفتوى في زماننا بقول محمد لغلبة الفساد. وعلل بعضهم بقوله لأن الفساق يجتمعون على هذه الأشربة ويقصدون اللهو والسكر بشربها‘‘
ترجمہ: جیسا کہ مصنِّفینِ ”ملتقی الابحر، مواھب الرحمن، الکفایۃ، النھایۃ شرح الھدایۃ، معراج الدرایۃ، شرح المجمع، غرر الأذکار شرح درر البحار، جامع الرموز اور رمز الحقائق“نے اپنی کتب میں ذکر کیا اور مجموعی طور پر اِنہوں نے ارشاد فرمایا کہ دین میں فساد اور احکامِ شریعت سے لاپرواہی کا غلبہ ہو جانے کے سبب آج کےزمانے میں امام محمد رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے قول پر فتوٰی ہے۔اُن میں سے بعض نے یہ علت بیان فرمائی کہ فساق وفجار اِس طرح کے مشروبات کی بیٹھکوں میں اکٹھے ہوتے ہیں اور محض اِن مشروبات کو پینے کا مقصد لہو ولعب اور نشہ چڑھانا ہوتا ہے۔ (ردالمحتار مع درمختار، جلد 22،کتاب الأشربۃ، صفحہ 285 ، مطبوعہ دمشق)
امامِ اہلِ سنَّت ، امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:’’معتمد مفتی بہ یہ ہے کہ ہرمائع مسکرکا ایک قطرہ بھی حرام اورنجس ہے۔‘‘ (فتاوٰی رضویہ، جلد 25،صفحہ211، رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
صرف ادویات کی حد تک اجازت:
عمومِ بلویٰ اور دفعِ حرج کی وجہ سے الکوحل آمیز ادویات کے استعمال کو جائز قرار دیا گیا،جو جان بچانے اور شدید مشکل سے نکلنے کی ایک صورت ہے۔ چنانچہ ہندوستان کے اہل سنت کے جلیل القدر مفتیانِ کرام کےتحقیق کردہ شرعی احکام پر مشتمل ”مجلس شرعی کے فیصلے“ کتاب میں ہے:’’اس عہد میں (اسپرٹ یا الکحل آمیز) انگریزی دواؤں کا استعمال عموم بلوی کی حد تک پہنچ چکا ہے ،مجدد اعظم اعلیٰ حضرت قدس سرہ نے پڑیا کی رنگت کے بارے میں عموم بلوی اور دفع حرج کی بنیاد پر طہارت اور جواز کا فتوی دیا ہے، جیسا کہ فتاوی رضویہ ،جلددوم صفحہ 45 ،اور صفحہ 50 نیز فتاوی رضویہ جلد دہم صفحہ 54 رسالہ” الفقہ التسجیلی فی عجین النارجیلی“ میں ہے، اس ارشاد کی روشنی میں فیصل بورڈ کے ارکان اس بات پر متفق ہیں کہ مذکورہ انگریزی دواؤں کے استعمال کی بھی بوجہ عموم بلوی (دفع ِحرج کے لیے )اجازت ہے ،البتہ یہ اجازت صرف انہیں صورتوں کے ساتھ خاص ہے جن میں ابتلائے عام اور حرج متحقق ہو ۔ (مجلس شرعی کے فیصلے، جلد 1، صفحہ 120، مطبوعہ مجلس شرعی)
یہ کہنا کہ جب تک نشہ نہ آئے، اُتنی مقدار الکوحل پینا معاذاللہ! جائز ہے، یہ حماقت اور جہالت کے سوا کچھ نہیں، چنانچہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1174ھ/1760ء)لکھتے ہیں:
’’وإنما المؤثر في التحريم كونه مزيلا للعقل يدعو قليله إلى كثيره فيجب به القول، ولايجوز لأحد اليوم أن يذهب إلى تحليل ما اتخذ من غير العنب، واستعمل أقل من حد الإسكار‘‘
ترجمہ:حرمت کا اصل سبب یہ ہے کہ وہ عقل کو زائل کرنے والی ہوتی ہے اور اس کا تھوڑا سا استعمال بھی آدمی کو زیادہ پینے کی طرف لے جاتا ہے، اس لیے اس کے حرام ہونے کا فتویٰ دینا واجب ہے۔ آج کسی کو یہ کہنے کی اجازت نہیں کہ اگر شراب انگور کے سوا کسی اور چیز سے بنائی گئی ہو، اور اس کا استعمال نشہ کی حد سے کم ہو، تو وہ جائز ہے ، ایسا کہنا درست نہیں۔ (حجۃ اللہ البالغۃ، جلد 02، صفحہ 292، مطبوعہ دار الجیل، بیروت)
”الفقہ الاسلامی و وأدلته“ میں ہے:
’’يظن بعض شاربي البيرة ونحوها أن قليلها حلال في مذهب الحنفية. والواقع أن قليلها وكثيرها حرام في كل المذاهب وبإجماع آراء الحنفية، لأن الخلاف فيما يسمى بالأشربة الحلال محصور فيما قصد بشربه تقوية البدن الضعيف. أما إذا كان يؤخذ للهو والتسلية كما يفعل هؤلاء الشاربون فهو حرام كالكثير تماماً، ولو قطرة واحدة‘‘
ترجمہ: بعض لوگ جو بئیر وغیرہ پیتے ہیں،یہ سمجھتے ہیں کہ تھوڑی مقدار پینا حنفی فقہ کے مطابق جائز ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ تھوڑی ہو یا زیادہ، ہر مقدار میں پینا تمام فقہی مذاہب میں اور خود حنفی علما کے نزدیک بھی حرام ہے۔ کیونکہ اختلاف فقط اُن مشروبات میں ہے، جو کمزور جسم کو طاقت دینے کی نیت سے پیے جائیں۔ لیکن اگر کوئی شخص اسے صرف لہو ولعب اور تفریح کے لیے پیتا ہے، جیسا کہ عام شرابی کرتے ہیں، تو وہ بالکل حرام ہے ، چاہے وہ صرف ایک قطرہ ہی کیوں نہ ہو۔ (الفقہ الاسلامی وادلتہ، جلد07، صفحۃ 5504، مطبوعہ کراچی)
یہ کہنا کہ جب تمباکو اور نسوار حلال ہے، تو الکوحل بھی نشہ لانے والی مقدار سے پہلے حلال ہے، تو یہ حماقت اور علمِ فقہ سے جاہل ہونے کی واضح دلیل ہے، کیونکہ فقہ اسلامی کے وہ قوانین جو نشہ آور چیزوں کے متعلق ہیں، وہ ”مائع“ چیزوں کے متعلق الگ ہیں اور ”ٹھوس“ یا ”جامد“ اشیاء کے متعلق جدا ہیں، لہذا مائع مسکرات کو جامد مسکِرات پر قیاس کرنا ہی ”قیاس مع الفارِق“ ہے، جبکہ دونوں اقسام کی مسکرات میں واضح فقہی نصوص موجود ہیں۔
جامِد مسکرات کے متعلق ضابطہ بیان کرتے ہوئے ”حاشیۃ ابن عابدین“ میں ہے:
’’الظاهر أن هذا خاص بالأشربة المائعة دون الجامد كالبنج والأفيون، فلا يحرم قليلها بل كثيرها المسكر، وبه صرح ابن حجر في التحفة وغيره، وهو مفهوم من كلام أئمتنا‘‘
ترجمہ: ظاہر یہی ہے کہ یہ ضابطہ صرف مائع (پینے والی) اشیاء کے ساتھ خاص ہے، نہ کہ ٹھوس اشیاء جیسے بھنگ اور افیون؛ لہٰذا ان کا تھوڑا استعمال حرام نہیں، بلکہ وہ مقدار حرام ہے جو نشہ پیدا کرے۔ اسی کی تصریح علامہ ابن حجر رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ”تحفۃ المحتاج“ وغیرہ میں کی ہے اور یہی بات ہمارے ائمہ کے کلام سے مفہوم ہوتی ہے۔(ردالمحتار مع درمختار، جلد 22،کتاب الأشربۃ، صفحہ 289 ، مطبوعہ دمشق)
ائمہ ثلاثہ کا مذہب:
الکوحل کی کثیر وقلیل، دونوں مقداریں پینا ہی ناجائز اور گناہ ہے۔ یہ صرف فقہِ حنفی کا قولِ مفتیٰ بہ نہیں، بلکہ دیگر مذاہبِ ثلاثہ بھی اِس پر متفق ہیں۔
فقہ شافعی:”البيان في مذهب الإمام الشافعي“میں ہے:
’’ما عدا الخمر من الأشربة المسكرة؛ كعصير العنب المطبوخ، ونبيذ التمر والزبيب والذرة والشعير، وغير ذلك.. فيحرم قليلها وكثيرها، ويجب بشربها الحد. وبه قال عمر، وعلي، وابن عبَّاس، وابن عمر، وأبو هريرة، وسعد ابن أبي وقاص، وابن مَسعُودٍ، وعائشة رضی اللہ عنهم. ومن الفقهاء: مالك، والأَوزَاعِي، وأحمد، وإسحاق‘‘
ترجمہ:خمر کے علاوہ دیگر تمام نشہ آور مشروبات ،جیسے پکا ہوا انگور کا رس، کھجور، کشمش، مکئی، اور جو سے بنے ہوئے نبیذ (نشہ آور مشروبات)، اور دیگر اس جیسے مشروبات ، ان سب کا تھوڑا یا زیادہ پینا حرام ہےاور جو ان میں سے کوئی بھی پیے، اس پر حد (شرعی سزا) لازم ہوگی۔اسی قول کو حضرت عمر، حضرت علی، حضرت ابن عباس، حضرت ابن عمر، حضرت ابو ہریرہ، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت ابن مسعود، اور حضرت عائشہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُم نے اختیار کیا ہےاور فقہاء میں سے امام مالک، امام اوزاعی، امام احمد بن حنبل، اور امام اسحاق رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہم بھی اسی رائے پر ہیں۔ (البيان في مذهب الإمام الشافعی، جلد 12، صفحہ 519، مطبوعہ دار المنھاج، جدۃ)
فقہ حنبلی:”شرح منتهى الإرادات للبهوتي “میں ہے:
’’كل مسكر خمر يحرم شرب قليله وكثيره ‘‘
ترجمہ:ہر نشہ آور مشروب (مجازاً) خمر ہے۔ اُس کی تھوڑی مقدار پینا یا زیادہ، دونوں حرام ہیں۔ (شرح منتهى الإرادات للبهوتي ، جلد 03، صفحہ 361، مطبوعہ دار عالم الكتب)
فقہ مالكی:” الذخیرۃ للقرافی “ میں ہے:
’’ما أسكر كثيره فقليله حرام من خمر أو نبيذ أو زبيب أو تمر أو تين أو حنطة أو غير ذلك وقاله ش وابن حنبل‘‘
ترجمہ:جس چیز کی زیادہ مقدار نشہ آور ہو،تو اس کی تھوڑی مقدار کا استعمال بھی حرام ہے ، خواہ وہ شراب ہو، یا نبیذ، یا کشمش، یا کھجور، یا انجیر، یا گیہو ں یا کسی دوسری چیز کا مشروب ۔ یہی بات امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہما نے بھی فرمائی ہے۔(الذخیرۃ للقرافی ، جلد 04، صفحہ 113، مطبوعہ دار الغرب الاسلامي، بيروت)
داخلی اور خارجی استعمال کا فرق:
اوپر مکمل دلائل الکوحل کے داخلی استعمال کے متعلق تھے کہ اُس میں صرف عمومِ بلوی کے سبب ادویات کی حد تک داخلی استعمال جائز ہے، اُس کے علاوہ اصل حکم شرعی وہی ہے، جو امام محمد رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہ نے بیان فرمایا۔ جہاں تک الکوحل کے خارجی استعمال کا تعلق ہے، تو اُس کے متعلق حکم شرعی یہ ہے کہ فی زمانہ الکوحل ملی پرفیوم ، سیاہی ، پالش ،رنگ اورشیمپووغیرہ اشیاء کا بیرونی استعمال جائز ہے، کیونکہ الکوحل اور اسپرٹ خمر نہیں ہیں اورخمر کے علاوہ نشہ آور مائع کی حرمت ونجاست میں اختلاف ہے، اوراس طرح کے مسائل میں جب کسی ایک قول پرفتویٰ دینے کی صورت میں امت حرج وتنگی میں پڑتی ہوتودوسرے قول پرفتویٰ دینے کی رخصت ہوتی ہے،چونکہ الکوحل کی نجاست کاحکم دینے میں آج کل امت کو سخت حرج کا سامنا کرناپڑے گا کہ خارجی استعمال کی الکحل آمیز اشیاء میں مسلمانوں کی اکثریت مبتلا ہے اورعمومِ بلویٰ اورحرج اس طرح کے مسائل میں تخفیف کا تقاضا کرتے ہیں، لہٰذا الکوحل آمیز تمام اشیاء کے خارجی استعمال میں امامِ اعظم ابوحنیفہ اور ان کے شاگرد رشید امام ابویوسف رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہما کے قول کے مطابق طہارت کافتویٰ دینا ہی مصلحت کے مطابق اور اسی میں دفع حرج اور امت کے لیے آسانی ہے۔
یہ کہنا کہ:” ہم بہت سی چیزوں(سینی ٹائزر، شیمپو وغیرہ) میں الکوحل استعمال کرتے ہیں، تو جب اُس کا استعمال جائز ہے، تو اُس کا معمولی مقدار میں پینا بھی جائز ہے۔“
یہ درحقیقت خارجی استعمال کی طہارت کو بنیاد بنا کر داخلی استعمال کی حِلَّت ثابت کرنا چاہتا ہے، حالانکہ یہ سراسر علمِ فقہ سے پورا ہی فارغ ہونے کی دلیل ہے، کیونکہ یہ قطعا ً ضروری نہیں ہے کہ ہر پاک چیز حلال بھی ہو۔ طہارت ونجاست جدا چیز ہے اور حلت وحرمت الگ چیز ہے، لہذا اصول یہ ہے کہ خباثت اور حلت ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتی، البتہ خباثت وطہارت اکٹھی ہو سکتی ہیں، چنانچہ حشرات الارض پاک ہیں، مگر علت ِ خبث کی بنیاد پراُن کا کھانا حرام ہے۔
ذیل میں چند چیزیں پڑھیے کہ جو خود پاک ہیں، مگر اُن کا کھانا حرام ہے:
(1)مہلک زہر، کہ پاک ہے، مگر کھانا حلال نہیں۔
(2)بحری حیوانات پاک ہیں، مگر مچھلی کے سوا حلال نہیں۔
(3) جن میں دمِ سائل نہ ہو، وہ پاک ہیں، مگر حلال نہیں۔
(4)مردار کے بال اور خشک ہڈیاں پاک ہیں، حلال نہیں۔
(5)اونچا اُڑنے والے حلال پرندوں کی بیٹ پاک ہے، مگر کھانا ،جائز نہیں۔
آخر میں یہ مسئلہ بھی یاد رکھیں کہ جاہل آدمی کا فتوی دینا حرام ، فرشتوں کی طرف سے لعنت برسنے کا ذریعہ اورجہنم میں لے جانے والا کام ہے اور ایسے بے دینوں کے فتوے پر عمل کرنا بھی حرام ہے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب : مفتی محمدقاسم عطاری
فتوی نمبر: FSD-9320
تاریخ اجراء: 26 شوال المکرم 1446ھ / 25 اپریل2025ء