سوکھنے سے پاک زمین پر نماز درست پر تیمم درست کیوں نہیں؟

سوکھنے سے پاک ہونے والی زمین پر نمازدرست ہونے اور تیمم درست نہ ہونے کی وجہ

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

ناپاک زمین پر نماز جائز ہے، لیکن اس سے تیمم جائز نہیں، اس فرق کی وجہ کیا ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

اولا درست مسئلہ سمجھ لیجئے کہ ”وہ ناپاک زمین جو دھوپ یا ہوا وغیرہ کسی وجہ سے اس طرح خشک ہوگئی کہ اس سے نجاست کا اثر بالکل ختم ہو گیا تو اب اس پر بلا حائل نمازپڑھنا جائز ہے، البتہ! اس سے تیمم جائز نہیں“ اور یہ بھی اس وقت ہے جبکہ اس زمین کو دھوکر پاک نہ کیا گیا ہو، لہٰذا اگر اس زمین کو دھو دیا گیا تو اب یہ قابل تیمم بھی ہوجائے گی۔

اب آئیے وجہ فرق کی طرف! تو اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن مجید میں تیمم کیلئے صعید طیب یعنی پاک مٹی کی شرط رکھی گئی ہے اور کسی بھی مٹی یا زمین کو طیب اس وقت کہا جاتا ہے جبکہ اس میں پاک ہونے کے ساتھ ساتھ صفت طہوریت یعنی پاک کرنے کی صلاحیت بھی ہو لہٰذا اگر کوئی مٹی یا زمین ایسی ہو جو خود تو پاک ہو لیکن اس میں پاک کرنے کی صلاحیت نہ ہو تو وہ طیب نہیں کہلائے گی اور اس سے تیمم بھی جائز نہیں ہوگا، اور جو زمین ناپاک ہوکر خشک ہوگئی وہ خود تو پاک ہوجاتی ہے لیکن اس میں صفت طہوریت یعنی آگے کسی کو پاک کرنے کی صلاحیت موجود نہیں ہوتی، لہٰذا اس سے تیمم جائز نہیں ہوتا جبکہ نماز میں خود اس زمین کا پاک ہونا شرط ہے، صفت طہوریت شرط نہیں، اس لئے اس پر نماز جائز رہتی ہے۔

اللہ کریم کا ارشاد مبارک ہے:

(فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَ اَیْدِیْكُمْؕ- اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُوْرًا)

ترجمہ کنز العرفان: اور پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سے تیمم کرو تو اپنے منہ اور ہاتھوں کا مسح کرلیا کرو بیشک اللہ معاف کرنے والا، بخشنے والا ہے۔(سورۃ النساء، پارہ 5، آیت: 43)

علامہ ابن نجیم مصری علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:

(قوله: و الأرض باليبس و ذهاب الأثر للصلاة لا للتيمم) أي تطهر الأرض المتنجسة بالجفاف إذا ذهب أثر النجاسة فتجوز الصلاة عليها ولا يجوز التيمم منها لأثر عائشة و محمد بن الحنفية زكاة الأرض يبسها أي طهارتها، و إنما لم يجز التيمم منها؛ لأن الصعيد علم قبل التنجس طاهرا و طهورا و بالتنجس علم زوال الوصفين، ثم ثبت بالجفاف شرعا أحدهما أعني الطهارة فيبقى الآخر على ما علم من زواله و إذا لم يكن طهورا لا يتيمم به و هذا أولى)

ترجمہ: مصنف کا قول: زمین کا خشک ہو جانا اور (نجاست کا) اثر ختم ہو جانا صرف نماز کے لیے (زمین کو) پاک کرتا ہے، تیمم کے لیے نہیں) مطلب یہ ہے کہ اگر زمین پر نجاست لگی ہو اور وہ خشک ہو جائے اور نجاست کا اثر بھی ختم ہو جائے تو ایسی زمین پر نماز پڑھنا جائز ہے، لیکن اس زمین سے تیمم کرنا جائز نہیں۔ اس کی دلیل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور محمد بن حنفیہ رضی اللہ عنہ کا یہ قول ہے: زمین کی زکات اس کا خشک ہو جانا ہے، یعنی زمین کی طہارت اس کے خشک ہونے سے ہے۔ ہاں اس سے تیمم اب بھی جائز نہیں اس لیے کہ صعید (زمین) کا نجس ہونے سے پہلے طاہر (پاک) اور طہور (پاک کرنے والی) ہونا معلوم تھا۔ جب نجس ہو گئی تو دونوں وصف (طاہر اور طہور ہونے کے) ختم ہو گئے۔ پھر شرعاً خشک ہونے سے صرف ایک وصف (یعنی طاہر ہونا) لوٹ آیا، اور دوسرا وصف (یعنی طہور ہونا) اس کے ختم ہونے کے طور پر برقرار رہا۔ جب وہ طہور نہ رہا تو اس سے تیمم نہیں کیا جا سکتا۔ اور یہی زیادہ بہتر اور صحیح بات ہے۔ (البحر الرائق، جلد 01، صفحہ 237، دار الكتاب الإسلامي)

حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:

(لاشتراط الطيب نصا) و هو الطهور أي و لم يوجد و ذلك لأنها قبل التنجس كان الثابت لها وصفين الطاهرية و الطهورية فلما تنجست زال عنها الوصفان و بالجفاف ثبت لها الطاهرية و بقی الآخر على ما كان عليه من زواله فلا يجوز التيمم بها

ترجمہ: (اس زمین سے تیمم ناجائز ہے) کیونکہ نص کی وجہ سے تیمم میں زمین کا طیب ہونا شرط ہے اور وہ یہاں نہیں پایا جارہا، کیونکہ اس زمین کے ناپاک ہونے سے پہلے دو وصف تھے: (1) پاک ہونا۔ (2) پاک کرنے والا ہونا۔ تو جب یہ زمین ناپاک ہوئی، اس کے دونوں وصف زائل ہوگئے اور پھر خشک ہونے کے ساتھ (اس کا ایک وصف) پاک ہونے والا، وہ پایا گیا اور دوسرا وصف (پاک کرنے والا ہونا ، جو تیمم کے لیے شرط ہے، وہ) جس حالت پر تھا یعنی مفقود، تو وہ مفقود ہی رہا ( وہ نہیں پایا گیا) اس لیے اس سے تیمم جائز نہیں۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، صفحہ 164، 165، دارالکتب العلمیۃ، بیروت)

فتاویٰ قاضی خان اور فتاویٰ عالمگیری میں ہے

و اللفظ للاول ”و الأرض إذا أصابتها النجاسة فجفت و ذهب أثرها ثم أصابها الماء بعد ذلك الصحيح أنه لا يعود نجسا و كذا لو جفت الأرض و ذهب أثر النجاسة ورش عليها الماء و جلس عليها لا بأس به“

ترجمہ: زمین جب ناپاک ہوگئی اور پھر خشک ہو کر نجاست کا اثر ختم ہوگیا، پھر اس زمین پر پانی پڑا، تو صحیح یہ ہے کہ دوبارہ ناپاک نہیں ہوگی۔ اسی طرح اگر زمین خشک ہو گئی اور اس نجاست کا اثر ختم ہو گیا اور اس زمین پر پانی چِھڑکا گیا اور کوئی شخص اس زمین پر بیٹھ گیا، تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ ( فتاویٰ قاضی، جلد 1، صفحہ 31، مطبوعہ کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد سعید عطاری مدنی

فتویٰ نمبر: WAT-4109

تاریخ اجراء: 13 صفر المظفر 1447ھ / 08 اگست 2025ء