کن جرابوں پر وضو میں مسح کرنا جائز ہے؟

جرابوں پر مسح کرنے کا حکم

دارالافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں  کہ وضو میں کیا صرف Socks پر پانی والا ہاتھ پھیر لینا کافی ہوتا ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

کاٹن وغیرہ کپڑے کی عام جرابیں جو پانی کو پاؤں تک پہنچنے سے نہیں روکتیں، وضو میں ایسی جرابوں پر گیلا ہاتھ پھیر لینا ہرگز کافی نہیں، اس سے وضو نہیں ہوگا اور ایسی صورت میں بغیر پاؤں دھوئے نماز پڑھی گئی ،تو نماز بھی نہیں ہوگی؛  اس لیے کہ شرعاً  صرف مخصوص قسم کے موزوں پر مسح کرنے کی اجازت ہے، جو کہ تین طرح کے ہو سکتے ہیں: (۱)مجلَّد: ایسے موزے کہ جن کے اوپر نیچے ٹخنوں تک کا حصہ چمڑے کا ہو یا کسی دوسری چیز کا ہو  مگر اس پر اوپر نیچے چمڑا لگا دیا گیا ہو۔ (۲)منعَّل: وہ جرابیں جن کا تلوا چمڑے سے بنایا گیا یا تلوے پر چمڑا لگا دیا گیا ہو اور بقیہ کسی اور موٹی چیز کی ہوں۔ (۳)ثخین: وہ جرابیں جو اتنی موٹی اور  مضبوط ہوں کہ تنہا انہیں کو پہن کر تین میل یا  اس سے زیادہ کا سفر کیا جا سکے کہ اس سے وہ پھٹیں نہیں، اور ان پر پانی پڑ جائے تو روک لیں کہ پانی فوراً پاؤں کی طرف نہ چلا جائے ،نیز موٹی اور مضبوط ہونے کے باعث کسی چیز سے باندھے بغیر پاؤں پر  ٹھہری رہیں۔ پس جو جرابیں ان میں سے کسی حالت پر  نہیں، جیسا کہ کپڑے کی رائج باریک جرابیں، تو ان پر مسح کرنا بالاتفاق جائز نہیں۔

ملک العلماء علامہ ابوبکر بن مسعود كاسانی حنفی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 587ھ/1191ء) لکھتے ہیں:

 ” فإن كانا رقيقين يشفان الماء لا يجوز المسح عليهما بالإجماع “

 ترجمہ: پس اگر جرابیں اتنی باریک ہوں کہ پانی کو (نیچے جلد کی طرف) چھن جانے دیں تو بالاجماع ان پر مسح جائز نہیں۔(بدائع الصنائع، کتاب الطهارة، جلد 1، صفحہ 10، دار الكتب العلميہ، بیروت)

امام اہل سنت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:

” أمّا غيرهما أعني: غير المنعل والمجلّد، فإن رقيقاً لم يجز بلا خلاف وإن ثخيناً جاز عندهما وعليه الفتوى، والثخين ما يمكن المشي فيه فرسخاً ويستمسك بلا شدٍّ لصفاقته لا لضيقه“

 ترجمہ: بہرحال ان کے علاوہ یعنی منعل اور مجلد کے علاوہ جرابیں، تو اگر وہ پتلی ہوں تو بلا اختلاف مسح جائز نہیں اور اگر وہ موٹی ہوں تو صاحبین کے نزدیک  جائز ہے اور اسی قول پر فتوی ہے۔ اور موٹی جراب وہ ہے کہ جس میں ایک فرسخ (یعنی تین میل) تک چلنا ممکن ہو اور اپنے دبیز پن کی وجہ سے بغیر باندھے ٹھہر جائے، نہ کہ تنگ ہونے کی وجہ سے۔ (جد الممتار علی رد المحتار، کتاب الطهارة ، جلد 2، صفحہ 314، مکتبة المدینه، کراچی)

آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فتاوی رضویہ میں  لکھتے ہیں:” سوتی یا اونی موزے جیسے ہمارے بلاد میں رائج(ہیں)، ان پر مسح کسی کے نزدیک  درست نہیں؛ کہ نہ وہ مجلد ہیں یعنی ٹخنوں تک چمڑا منڈھے ہوئے، نہ منعل یعنی تلا چمڑے کا لگا ہوا، نہ ثخین یعنی ایسے دبیز و محکم کہ تنہا انہیں کو پہن کر قطع مسافت کریں، تو شق نہ ہو جائیں اور ساق پر اپنے دبیز ہونے کے سبب بے بندش کے رُکے رہیں، ڈھلک نہ آئیں، اور اُن پر پانی پڑے تو روک لیں فوراً پاؤں کی طرف چھن نہ جائے۔ جو پائتابے ان تینوں وصف مجلد منعل ثخین سے خالی ہوں اُن پر مسح بالاتفاق ناجائز ہے۔ ہاں اگر اُن پر چمڑا منڈھ لیں یا چمڑے کا تلا لگا لیں تو بالاتفاق،  یا شاید کہیں اُس طرح کے دبیز بنائے جائیں، تو صاحبین کے نزدیک  مسح جائز ہوگا اور اسی پر فتوی ہے۔“(فتاوی رضویہ، جلد 4، صفحہ 345-346، رضا فاؤنڈیشن، لاهور)

صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 1367ھ/1948ء) لکھتے ہیں: ” ہندوستان میں جو عموماً سوتی یا اُونی موزے پہنے جاتے ہیں اُن پر مسح جائز نہیں، ان کو اتار کر پاؤں دھونا فرض ہے۔“(بھار شریعت، جلد 1، حصہ 2، صفحہ 364، مکتبة المدینہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب :مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر :FAM-1017

تاریخ اجراء :23 جمادى الآخریٰ 1447ھ/15 دسمبر 2025ء