شرٹ پر تصویر پرنٹ کروانے کا حکم

شرٹ پر اپنی تصویر پرنٹ کروانا کیسا ؟

دارالافتاء اھلسنت عوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس  مسئلے کے بارے میں کہ جشنِ آزادی یعنی 14اگست کے موقع پر کئی افراد شرٹ پر 14اگست کے مونو گرام کے ساتھ اپنی یا چھوٹے بچوں کی تصاویر پرنٹ کروا تے  ہیں،تو کیا یوں شرٹ پر تصاویر پرنٹ کرنا اور کروانا، جائز ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

14اگست کا موقع ہو یا اس کے علاوہ کوئی اور،بہر صورت شرٹ پر اپنی یا چھوٹے بچوں، بلکہ   کسی بھی جاندار کی تصویر پرنٹ کرنا اور کروانا ناجائزو حرام  اور گناہ ہے، کیونکہ بغیر رخصتِ شرعی کسی بھی جاندار کی تصویر بنانا اور بنوانا مطلقاً حرام ہے، احادیثِ طیبہ میں اس پر سخت وعیدات بیان کی گئی ہیں۔نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’کل بروزِ قیامت سب سے زیادہ عذاب تصویر بنانے والوں کو ہوگا اور اللہ پاک انہیں اس وقت تک عذاب میں مبتلا رکھے گا،جب تک وہ اس تصویر میں روح نہ ڈال دیں اور وہ ہر گز اس میں روح نہیں ڈال سکیں گے۔‘‘نیز جس کپڑے پر جاندار کی تصویرچہرے کے ساتھ موجود ہو اور وہ اتنی بڑی ہو کہ زمین پر رکھ کر کھڑے ہو کر دیکھیں، تو اعضاء کی تفصیل واضح نظر آئے، تو ایسا لباس پہننا، پہنانا، خریدنا اور بیچنا،سب ناجائزہے  اور اسے پہن کر نماز بھی مکروہِ تحریمی واجب الاعادہ ہے، کہ پڑھنی گناہ اور پڑھ لی، تو اسے دوبارہ پڑھنا واجب ہے۔

تنبیہ:آزادی یقیناً اللہ جل شانہ کی بہت بڑی نعمت ہے،اس نعمت کی قدر کرتے ہوئے نیک اعمال(مثلاً فرائض  و واجبات کے ساتھ ساتھ نوافل،تلاوتِ قرآن، ذکر و درود اور صدقہ و خیرات وغیرہ)بجا لا کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے اور آزادی کے نام پر طرح طرح سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنا، ناشکری اور کفرانِ نعمت ہے،جس سے بچنا لازم ہے۔

رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

’’ان اشد الناس عذابا عند اللہ المصورون ‘‘

ترجمہ:بیشک اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ عذا ب تصویر بنانے والوں کو ہو  گا ۔(صحیح البخاری ، ج2،ص880،مطبوعہ کراچی)

اور حضرت سعید بن ابو الحسن رضی اللہ تعالیٰ عنھفرماتے ہیں :

’’كنت عند ابن عباس رضی اللہ عنهما، اذ اتاه رجل فقال:ياابا عباس!انی انسان انما معيشتی من صنعة يدی وانی اصنع هذه التصاوير، فقال ابن عباس:لا احدثك الا ما سمعت رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم،يقول:سمعته يقول:من صور صورة،فان اللہ معذبه،حتى ينفخ فيها الروح وليس بنافخ فيها ابدا،فربا الرجل ربوة شديدة واصفر وجهه،فقال:ويحك، ان ابيت الا ان تصنع، فعليك بهذا الشجر، كل شیء ليس فيه روح‘‘

ترجمہ: میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کی بارگاہ میں تھا، ایک شخص نے آ کر عرض کی:میں ایسا شخص ہوں کہ  میری روزی کا ذریعہ میرے ہاتھ کی کاریگری ہے، میں یہ تصاویر بناتا ہوں۔حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے ارشاد فرمایا:میں تمہیں وہی بیان کرتا ہوں،جو میں نے نبیِ کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے،میں نے آپ صلی  اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے:’’جس نے (جاندار) کی تصویر بنائی ،تو اللہ تعالیٰ اسے  عذاب میں مبتلا رکھے گا یہاں تک کہ وہ اس میں روح ڈال دے اور وہ ہر گز اس میں روح نہیں ڈال سکے گا۔پس اس شخص کا سانس پھول گیا اور چہرہ زرد ہو گیا ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے ارشاد فرمایا: تیری خرابی ہو، اگر تو تصویر بنانے سے نہیں رکے گا، تو درخت اور  اس چیز کی تصویر بنا، جس میں جان نہیں ہوتی۔ (صحیح البخاری، ج1،ص296،مطبوعہ کراچی)

ملا علی قاری علیہ رحمۃ اللہ القوی ارشاد فرماتے ہیں:

’’قال اصحابنا وغيرهم من العلماء:تصوير صورة الحيوان حرام شديد التحريم وهو من الكبائر،لانه متوعد عليه بهذا الوعيد الشديد المذكور في الاحاديث،سواء صنعه في ثوب او بساط او درهم او دينار او غير ذلك‘‘

ترجمہ:ہمارے اصحاب اور دیگر علماء نے فرمایا:جاندار کی تصویر بنانا حرام ، شدید حرام اور کبیرہ گناہ ہے،کیونکہ اس پر شدید وعید آئی ہے،جو احادیث میں مذکور ہے،برابر ہے کہ یہ تصویر کپڑے پر ہو یا بچھونے پر یا درہم و دینار وغیرہ پر۔ (مرقاۃ المفاتیح،ج7،ص2848،مطبوعہ،دار الفکر،بیروت)

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:”فوٹو ہویادستی تصویر،پوری ہویانیم قد،بنانا،بنوانا سب حرام ہے،نیز اس کاعزّت سے رکھنا حرام، اگرچہ نصف قد کی ہو، کہ تصویر فقط چہرہ کانام ہے۔‘‘ (فتاوی رضویہ، ج 24، ص 568، رضافاؤنڈیشن، لاھور)

مزید ارشاد فرماتے ہیں:” کسی جاندار کی تصویر جس میں اس کاچہرہ موجود ہو اور اتنی بڑی ہوکہ زمین پررکھ کر کھڑے سے دیکھیں تو اعضا کی تفصیل ظاہرہو،اس طرح کی تصویر جس کپڑے پرہو اس کاپہننا، پہنانا یابیچنا، خیرات کرنا سب ناجائزہے، اور اسے پہن کرنمازمکروہ تحریمی ہے جس کادوبارہ پڑھنا واجب ہے۔‘‘                    ( فتاوی رضویہ، ج 24، ص 567،  رضافاؤنڈیشن،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: محمد فرحان افضل  عطاری

مصدق: مفتی محمد قاسم عطاری 

فتوی نمبر:WAT-3962

تاریخ اجراء04صفر المظفر1446ھ10اگست2024ء