بچے سے جھوٹ بولنا کیسا؟

چھوٹے بچے کو اسکول وغیرہ کا کام کروانے کے لیے چیز دینے کا جھوٹ بول سکتے ہیں ؟

دارالافتاء اھلسنت عوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کوئی نابالغ بچہ والدین کی بات نہ مان رہا ہو، جیسا کہ والدین اس کو سبق یاد کرنے کا بولیں اور وہ کسی کھیل وغیرہ میں مصروف ہو، تو کیا والدین اس کو کسی پسندیدہ چیز کا لالچ دے سکتے ہیں کہ اگر آپ سبق یاد کر لیں، تو ہم آپ کو چاکلیٹ دیں گے؟ جبکہ حقیقت میں والدین کا بچے کو چاکلیٹ دینے کا ارادہ نہیں ہے۔ کیا نابالغ کی اصلاح اور بہتری کے لئے مذکورہ طریقۂ کار اختیار کیا جا سکتا ہے اور یہ جھوٹ تو شمار نہیں ہو گا ؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں بچے کو سبق یاد کرنے پر آمادہ کرنے، اسے اپنی طرف بلانے یا اس سے کوئی کام کروانے کے لئے اس طرح غلط بیانی کرنا، جائز نہیں کہ یہ بھی جھوٹ ہی کی ایک قسم ہے اور اس میں وعدہ خلافی کی صورت بھی پائی جا رہی ہے، جبکہ جھوٹ بولنا، سخت ناجائز و حرام اور گناہ کا کام ہے، یونہی وعدہ خلافی کے متعلق بھی احادیثِ نبویہ میں بہت سخت وعیدیں موجود ہیں اور بچے کے ساتھ ایسا رویہ رکھنے کا مزید نقصان یہ بھی ہے کہ اس طرح بچے کی طبیعت میں بھی جھوٹ کی عادت شامل ہو جاتی ہے، حالانکہ والدین کے لئے حکمِ شرع یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کی اچھی تربیت کریں۔

بچوں سے غلط بیانی کرنا بھی جھوٹ میں شامل ہے، چنانچہ حدیثِ پاک میں ہے:

عن أبي هريرة، عن رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم أنه قال: ”من قال لصبي: تعال هاك، ثم لم يعطه فهي كذبة“

 ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول پاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرما یا: جس نے کسی بچے سے کہا کہ آؤ یہ چیز لے لو، پھر اس کو وہ چیز نہ دی، تو یہ جھوٹ ہے۔ (مسند احمد، جلد 15، صفحہ 520، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ)

اسی طرح ایک اور حديثِ پاک میں ہے:

”عن عبد اللہ بن عامر، أنه قال: دعتني أمي يوما و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قاعد في بيتنا، فقالت: ها تعال أعطيك، فقال لها رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وما أردت أن تعطيه؟ قالت: أعطيه تمرا، فقال لها رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: أما إنك لو لم تعطه شيئا كتبت عليك كذبة“

 ترجمہ: عبداللہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر میں تشریف فرما تھے کہ میری والدہ نے مجھے پکارا، جلدی سے آؤ میں تجھے کچھ دوں گی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے میری والدہ سے پوچھا تم اس بچے کو کیا چیز دینا چاہتی ہو؟ تو والدہ نے کہا میں اسے ایک کھجور دینا چاہتی ہوں پھر رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’یاد رکھنا اگر اس کہنے کے بعد تم بچے کو کوئی چیز نہ دیتی، تو تمہارے نامۂ اعمال میں ایک جھوٹ لکھ دیا جاتا۔ (سنن ابی داؤد، جلد 7، صفحہ 343، مطبوعہ دار الرسالہ العالمی ہ)

اس حدیثِ پاک کی شرح میں علامہ علی قاری حنفی رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں:

”أي: مرة من الكذب، وفي بعض النسخ بكسر فسكون، أي: نوع من الكذب“

 ترجمہ: یعنی ایک مرتبہ جھوٹ (بولنا نامۂ اعمال میں لکھ دیا جاتا) اور بعض نسخوں میں کسرہ کے بعد جزم کے ساتھ ہے یعنی جھوٹ کی ایک قسم ( تمہارے نامۂ اعمال میں لکھ دی جاتی)۔ (مرقاۃ المفاتیح شرحِ مشکوۃ المصابیح، جلد 8، صفحہ 3060، مطبوعہ دار الفکر، بیروت)

حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں: ”یہ فرمان عالی بہت ہی سبق آموز ہے کہ ماں چھوٹے بچوں کو جھوٹے بہانے سے نہ بلائے غلط خبر نہ دے کہ یہ بھی جھوٹ ہے۔ “ (مرآۃ المناجیح شرحِ مشکوۃ المصابیح، جلد 6، صفحہ 493، مطبوعہ ضیاء القرآن، لاھور)

 بہارِ شریعت میں ہے: ”جھوٹ ایسی بری چیز ہے کہ ہر مذہب والے اس کی برائی کرتے ہیں تمام ادیان میں یہ حرام ہے اسلام نے اس سے بچنے کی بہت تاکید کی، قرآن مجید میں بہت مواقع پر اس کی مذمت فرمائی اور جھوٹ بولنے والوں پر خدا کی لعنت آئی۔ حدیثوں میں بھی اس کی برائی ذکر کی گئی (ہے)۔ “ (بھارِ شریعت، جلد 3، صفحہ 515، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وعدہ خلافی کرنے والوں کے متعلق حدیثِ پاک میں ہے:

”عن أنس قال: ما خطبنا النبي صلي اللہ تعالي عليه وسلم: إلا قال: لا إيمان لمن لا أمانة له، ولا دين لمن لا عهد له“

ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم جب ہمیں خطبہ ارشاد فرماتے، تو یہ بھی ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ اس شخص کا ایمان (کامل) نہیں کہ جو امانت دار نہیں اور اس شخص کا دین (مکمل) نہیں کہ جو وعدے کی پاسداری نہیں کرتا۔ (مسندِ احمد، جلد 20، صفحہ 423، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ )

امام اہلسنت، اعلیٰ حضرت، امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہیں: ”اگر وعدہ سرے سے صرف زبانی، بطور دنیا سازی کیا اور اسی وقت دل میں تھا کہ وفا نہ کریں گے تو بے ضرورت شرعی وحالت مجبوری سخت گناہ وحرام ہے ایسے ہی خلاف وعدہ کو حدیث میں علامات نفاق سے شمار کیا۔“ (فتاوی رضویہ، جلد12، صفحہ281، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

اولاد کی اچھی تربیت کے متعلق حدیثِ پاک میں ہے:

”عن ابن عباس أنهم قالوا: يا رسول اللہ قد علمنا ما حق الوالد على الولد، فما حق الولد على الوالد؟ قال: أن يحسن اسمه، ويحسن أدبه“

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے عرض کی: یا رسول اللہ(صلی اللہ تعالی علیہ وسلم) والدین کے اولاد پر حقوق تو ہم نے سیکھ لیے ہیں، تو (آپ یہ بھی ارشاد فرما دیجئے کہ )اولادکا باپ پر كيا حق ہے ؟ نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یہ کہ باپ ان کا اچھا نام رکھے اور اچھی تربیت کرے۔ (شعب الایمان، جلد1، صفحہ133، مطبوعہ ہند )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FSD-9590

تاریخ اجراء:06  جمادی  الاولی1447ھ/29 اکتوبر 2025 ء