
دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ
(1) ایک شخص مارکیٹ میں مشہور و معروف اور رجسٹرڈ کمپنی کے نام کے ٹشو (Tissue) اور وائپس (Wipes) ہول سیل ریٹ پر مختلف دکانوں پرفروخت کرتا ہے، لیکن حقیقت میں اس معروف کمپنی کے نہیں ہوتے، بلکہ وہ شخص یہ چیزیں خود تیار کر کے اس کمپنی کا نام اور اس کے ریپر کی مثل پیکنگ اور مونوگرام وغیرہ استعمال کرتے ہوئے خود پیک کر کے مارکیٹ میں فروخت کرتا ہے، اس طرح اسے کم خرچ میں زیادہ پرافٹ مل جاتا ہے، تو اس شخص کا اس طرح اپنے ٹشو اور وائپس بیچنا کیسا ہے؟
(2) نیز اگر وہ دکانداروں کو واضح طور پر بتا کر بیچے، تو اس سے ٹشو اور وائپس خریدنا کیسا ہے؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
(1)پوچھی گئی صورت میں اس شخص کے اپنے تیار کردہ ٹشو (Tissue)اور وائپس (Wipes) کسی اورمعروف کمپنی(Company) کے نام سے بیچنا متعدد وجوہ مثلاً:کمپنی کی حق تلفی، قانونی جرم، دھوکا دہی اور جھوٹ کی آمیزش کی وجہ سے ناجائز و حرام اور گناہ ہے۔
مذکورہ معاملے میں موجود خرابیوں کی تفصیل یہ ہے:
کمپنی (Company) کی حق تلفی :
کمپنی کی اجازت کے بغیر اس کا نام (Name) استعمال کرتے ہوئے اُس کی پیکنگ (Packing) کی طرح کی پیکنگ میں اپنا مال ڈال کر بیچنا کمپنی کی حق تلفی اور اس کی ساخت کو نقصان پہنچانا ہے، جبکہ اسلام نے ہمیں کسی کی حق تلفی اور نقصان پہنچانے سے صاف منع فرما دیا ہے۔
’’المعجم الاوسط‘‘ میں حضرت سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنھ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’ لا ضرر ولا ضرار فی الاسلام‘‘
ترجمہ: اسلام میں نہ ضرر (نقصان) ہے اور نہ ضرر دینا۔ (المعجم الاوسط، جلد 5، صفحہ 238، مطبوعہ قاھرہ)
’’فتاوی یورپ‘‘ میں کسی کے سامان کی نقل بنا کر بیچنے کے متعلق سوال ہوا، تو جواباً فرمایا:
’’شریعت اسلامیہ نے نقصان و ضرر برداشت کرنے اور کسی کو نقصان و ضرر پہنچانے، دونوں سے منع فرمایا ہے:
’’ لاضرر و و لا ضرار فی الاسلام‘‘
پس کوئی سامان خرید کر اس کی نقلیں اتارنا، پھر اسے بازار میں فروخت کرنا، اس کی کمپنی یا اصل موجد یا بائع کو نقصان و ضرر پہنچانا ہے اور جہاں یہ صورت پائی جائے اسلام اس کی ہر گز اجازت نہیں دے سکتا۔‘‘ (فتاوی یورپ، صفحہ 444، 445، شبیر برادرز، لاھور)
قانونی جرم کا ارتکاب:
کسی بھی رجسٹرڈکمپنی کی اجازت و رضا مندی کے بغیر ان کا نام اور مونوگرام (Monogram) وغیرہ استعمال کرنا قانونی طور پر جرم ہے اور اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پکڑے جانے کی صورت میں اپنے آپ کو ذلت پر پیش کرنا ہے اور اسلام ہمیں اس کی بھی اجازت نہیں دیتا، بلکہ ایسا قانون جو شریعت کے خلاف نہ ہو، اس کی پاسداری شرعاً بھی لازم اور خلاف ورزی ممنوع ہوتی ہے۔
اللہ عزوجل قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:
﴿وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّہْلُکَۃ﴾
ترجمہ کنز الایمان:’’اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو۔‘‘ (پارہ 2،سورۃ البقرہ ،آیت195)
جامع ترمذی و مسند امام احمد بن حنبل میں حضرت سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:
والنظم للثانی:’’لا ینبغی للمؤمن ان یذل نفسہ، قیل: وکیف یذل نفسہ؟ قال: یتعرض من البلاء لما لا یطیق‘‘
ترجمہ : کسی مسلمان کے لیے روا نہیں کہ وہ اپنے آپ کو ذلت پہ پیش کرے، عرض کی گئی کہ مسلمان اپنے آپ کو کیسےذلت پہ پیش کرے گا؟ ارشاد فرمایا: ایسی مصیبت کے درپے ہو جس کی طاقت نہ رکھتا ہو۔ (مسند امام احمد بن حنبل، حدیث حذیفہ بن الیمان، جلد 38، صفحہ 435، مطبوعہ بیروت)
جائز قانون توڑنا شرعاً منع ہے۔ فتاوی رضویہ میں ہے:’’کسی ایسے امر کا ارتکاب جو قانوناً ناجائز ہو، اور جرم کی حد تک پہنچے، شرعاً بھی ناجائز ہو گا، کہ ایسی بات کے لئے جرمِ قانونی کا مرتکب ہو کر اپنے آپ کو سزا اور ذلت کے لئے پیش کرنا شرعاً بھی روا نہیں، قال تعالی:﴿ ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکۃ ﴾۔‘‘ ( فتاوی رضویہ، جلد 20، صفحہ 192، رضا فاؤنڈیشن، لاھور )
وقارالفتاوی میں ہے:”مسلمان کو خلافِ قانون کوئی کام کرنا، جائز نہیں ہے،اس لیے کہ خلافِ قانون کام کرنے سے جب پکڑا جائے گا ،تو پہلے جھوٹ بولے گا،اگرجھوٹ سے کام نہ چلا، تو رشوت دے گا،رشوت سے بھی کام نہ چلا تو سزا ہوگی، جس میں اس کی بے عزتی ہے۔مسلمان کوئی ایسا کام ہی نہ کرے جس سے جھوٹ بولنا یا رشوت دینا پڑے یا جس سے اس کی بے عزتی ہو۔‘‘(وقارالفتاوی، جلد1، صفحہ252، بزم وقار الدین، کراچی)
دھوکا دہی:
اس کے ناجائز ہونے کا ایک عنصر دھوکا دہی بھی ہے، یوں کہ جو دکاندار اور گاہک حقیقتِ حال سے آگاہ نہیں ، وہ تو یہ ٹشو اور وائپس مشہور و معروف کمپنی کے ہی سمجھتے رہیں گے، حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے اور دھوکا دہی کا معاملہ اس قدر سنگین ہے کہ مسلمان تو مسلمان، کافر کو دھوکا دینا بھی حرام ہے ۔
دھوکا دہی کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’من غش فلیس منی‘‘
ترجمہ : جس نے دھوکا دیا، وہ مجھ سے نہیں(یعنی اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں)۔ (صحیح المسلم، کتاب الایمان، جلد 1، صفحہ 70، مطبوعہ کراچی)
فیض القدیر میں ہے :
”والغش ستر حال الشئ“
ترجمہ:دھوکا: کسی چیز کی اصل حالت چھپانا ہے۔ (فیض القدیر،جلد6،صفحہ240،مطبوعہ بیروت)
امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں:’’غدر و بد عہدی مطلقاً سب سے حرام ہے، مسلم ہو یا کافر، ذمی ہو یا حربی، مستامن ہو یا غیر مستامن، اصلی ہو یا مرتد۔‘‘ (فتاوی رضویہ، جلد 14، صفحہ 139، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
فتاوی یورپ میں ایک اور مقام پر تفصیلی کلام کرتے ہوئے فرمایا: ’’اپنی دکان یا فارم یا تنظیم کا کوئی نہ کوئی نام رکھ لینے کا حق ہرآدمی کو حاصل ہے، لیکن اگر کوئی نام کسی نے رکھ لیا اور اسی نام کے ساتھ اس کا مفاد وابستہ ہو گیا، تو اب دوسرے شخص کو یہ حق نہ رہا کہ اسی نام کا استعمال کرے، خصوصاً ایسی صورت میں جبکہ وہ نام رجسٹریشن بھی ہو چکا ہو، کیونکہ اس میں عوام کو دھوکا دینے اور اپنے بھائی کے تجارتی مفاد کو غصب کرنے کے علاوہ آئینی جرم کا ارتکاب بھی ہے۔‘‘ (فتاوی یورپ، صفحہ 443 ،شبیر برادرز، لاھور)
جھوٹ:
نیزاس میں جھوٹ کا شائبہ بھی موجود ہے، کیونکہ جھوٹ خلافِ واقع بات کرنے کو کہتے ہیں اورجو مال کمپنی کا نہیں، اس پر کمپنی کا نام چسپاں کرنا جھوٹ کا جامہ پہنانا ہے۔ نیز کسی کے پوچھنے پر اگر مال کو معروف کمپنی کی طرف ہی منسوب کر دیا، تو یہ صریح جھوٹ ہو گا اور جھوٹ بولنا کبیرہ گناہ ہے اور اس سے مال میں برکت بھی ختم ہو جاتی ہے۔
جھوٹوں کے بارے میں قرآن کریم میں ہے:
﴿فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَى الْكٰذِبِیْنَ﴾
ترجمہ کنزالایمان: ’’تو جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ڈالیں۔‘‘ (پارہ3، سورۃ آل عمران،آیت 61)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’ایاکم والکذب، فان الکذب یھدی الی الفجور وان الفجور یھدی الی النار وان الرجل لیکذب ویتحری الکذب حتی یکتب عند اللہ کذابا‘‘
ترجمہ: جھوٹ سے بچو کہ جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ جہنم میں لے جانے کا ذریعہ ہے، کوئی شخص جھوٹ بولتا اور سوچتا رہتا ہے حتی کہ اللہ کی بارگاہ میں جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الادب، باب فی التشدید الکذب، جلد 2، صفحہ 339، مطبوعہ لاھور)
علامہ سید شریف جرجانی رحمۃ اللہ علیہ جھوٹ کی تعریف یوں لکھتے ہیں:
’’عدم مطابقته للواقع‘‘
ترجمہ: بات کا واقع کے مطابق نہ ہونا (جھوٹ ہے) ۔ (التعریفات للجرجانی،صفحہ129، مطبوعہ کراچی)
(2) ماقبل تفصیل سے واضح ہو گیا کہ متعدد وجوہ کی بناء پر اپنے تیار کردہ ٹشو اور وائپس کو مخصوص کمپنی کا نام دے کر بیچنا ناجائز و حرام اور گناہ ہے اور بالفرض اگر وہ شخص تمام دکانداروں کو ، حتی کہ ہر گاہک کو حقیقتِ حال سے آگاہ کر بھی دے(اور حقیقتاً ایسا نہیں ہوتا)، تب بھی کمپنی کی حق تلفی اور قانونی جرم کے ارتکاب جیسے خلافِ شرع عنصر برقرار رہیں گے، لہذا معلوم ہونے کے باوجود کسی بھی دکاندار کا اس سے مال خریدنا اس کے گناہ کے کام میں معاونت کہلائے گا اور قرآن کریم میں ہمیں گناہ پر معاون بننے سے واضح طور پر منع فرما دیا گیا ہے۔
اللہ عزوجل قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:
﴿وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ﴾
ترجمہ کنز العرفان:’’اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرواور اللہ سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ شدید عذاب دینے والا ہے۔‘‘ (پارہ 6، سورۃ المائدہ،آیت2)
اس آیت کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے:’’ گناہ اور ظلم میں کسی کی بھی مدد نہ کرنے کا حکم ہے۔ کسی کا حق مارنے میں دوسروں سے تعاون کرنا، ۔۔۔ حرام و ناجائز کاروبار کرنے والی کمپنیوں میں کسی بھی طرح شریک ہونا، بدی کے اڈوں میں نوکری کرنا ،یہ سب ایک طرح سے برائی کے ساتھ تعاون ہے اور ناجائز ہے۔‘‘ (صراط الجنان، جلد 2، صفحہ 379، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی وقار الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’ناجائز کام کےلئے ملازمت کرنا اور اس سے تعاون کرنا بھی ناجائز ہے۔‘‘ (وقار الفتاوی، جلد 3، صفحہ 326،مطبوعہ بزم وقار الدین، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب : ابو تراب محمد علی عطاری
مصدق: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: Pin-7604
تاریخ اجراء: 29ذوالقعدۃ الحرام1446ھ26جون 2025ء