دارالافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)
اگر ہم بیع سلم کے ذریعے کوئی چیز خریدیں اور پھر چیز پر خود قبضہ کئے بغیر، ڈائریکٹ کسٹمر کو چیز بھیج دیں، تو یہ بیع قبل القبض تو نہیں ہوگی؟ کیا ایسا کرنا جائز ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
منقولی چیز کسی کو بیچنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اپنی ملک میں ہونے کے ساتھ ساتھ اس پر قبضہ بھی پایا جائے، اب خواہ عام بیع ہو یا بیع سلم، مبیع خود آپ کے یا آپ کے وکیل کے قبضے میں ہو گی، تب آپ کا آگے کسی اور کو بیچنا جائز ہو گا ورنہ نہیں۔
جو چیز خرید لی ہو، اس پر قبضہ کیے بغیر آگے فروخت کرنے کے بارے میں صحیح مسلم میں ہے
”قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: من ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يقبضه، قال ابن عباس: وأحسب كل شيء ٓ بمنزلة الطعام“
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص غلہ خریدے، تو قبضہ کرنے سے پہلے اس کو آگے نہ بیچے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما فرماتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ تمام اشیا غلے ہی کی طرح ہیں (یعنی باقی چیزوں کا بھی یہی حکم ہے)۔ (صحیح مسلم، کتاب البیوع، باب بطلان البیع قبل القبض، صفحہ588، حدیث: 1525، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
اسی بارے میں ایک اور حدیث پاک میں ہے
”نهى رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم۔۔۔عن بيع ما لم يقبض“
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے کسی چیز پر قبضہ کرنے سے پہلے اس کو بیچنے سے منع فرمایا۔ (المعجم الاوسط للطبرانی، جلد 2، صفحہ154، حدیث: 1554، مطبوعہ: قاھرۃ)
محیط برہانی اور بنایہ شرح ہدایہ میں ہے
(واللفظ للآخر) ”بيع المنقول قبل القبض لا يجوز بالإجماع“
ترجمہ: منقولی ( یعنی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کے قابل )چیز کو قبضہ سے پہلے بیچنا، بالاجماع ناجائز ہے۔ (البنایۃ شرح الھدایۃ، کتاب البیوع، باب الاقالۃ، جلد 7، صفحہ 298، مطبوعہ: کوئٹہ)
درمختار میں ہے
”(ولا يجوز التصرف) للمسلم إليه (في رأس المال و) لا لرب السلم في (المسلم فيه قبل قبضه بنحو بيع وشركة)“
ترجمہ: مسلم الیہ (بائع) کو راس المال میں اور رب السلم (مشتری) کو مسلم فیہ میں قبضہ سے پہلے تصرف جائز نہیں ہے، بیع اور شرکت کی طرح۔
اس کے تحت ردالمحتارمیں ہے
”وأما الثاني فلأنه بيع منقول، وقد مر أن التصرف فيه قبل القبض لا يجوز“
ترجمہ: بہرحال ثانی اس وجہ سے کہ وہ منقول کی بیع ہے اور یہ گزر چکا کہ منقول میں قبضہ سے پہلے تصرف جائز نہیں۔ (الدرالمختارمع ردالمحتار، کتاب البیوع، باب السلم، جلد7، صفحہ492-493، مطبوعہ: کوئٹہ)
فتاوی رضویہ میں امام اہل سنت، مجدد دین و ملت، الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ بیع سلم کا شرعی حکم بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ”بیع سلم کی ایک ضروری شرط یہ بھی ہے کہ میعاد عقدمیں معین کردی جائے، جب یہاں تعیین وقت نہ ہوا، بیع حرام ہوگئی۔۔۔ نہ یہ روا ہے کہ اپنے قبضہ میں آجانے سے پہلے اس میں کوئی تصرف مثل بیع وغیرہ کیاجائے۔“ (فتاوی رضویہ، جلد17، صفحہ577، رضا فاونڈیشن، لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب : مولانا محمد ابو بکر عطاری مدنی
فتوی نمبر : WAT-4471
تاریخ اجراء : 02جمادی الثانی1447 ھ/24نومبر2025 ء