کیا چیز مہنگی خریدنے کے بعد خریدار کو واپسی کا اختیار ہوگا؟

مارکیٹ ریٹ سے بہت مہنگی چیز خرید لی تو واپس کرنے کا حق ہے؟

دار الافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ زید نے بکر سے ایک سوٹ 200 ریال میں خریدا، خریدنے کے بعد زید کو شک ہوا کہ اس نے یہ سوٹ مہنگاخریدا ہے،اس نے بعینہٖ اسی کوالٹی، اسی رنگ و ڈیزائن کےسوٹ کا ریٹ مارکیٹ سے معلوم کیا تو وہی سوٹ دیگر دکانوں سے بآسانی 100ریال میں مل رہا ہے، اب زید وہ سوٹ بکر کو واپس کرنا چاہتا ہے، لیکن بکرسوٹ واپس کرنے پر رضا مند نہیں ہے، کیا زید کو شرعاً یہ حق حاصل ہے کہ وہ بکر کی رضا مندی کے بغیر تنہا اس عقد کو ختم کر دے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں اگر بکرنے مارکیٹ ریٹ سےزیادہ ریٹ پرسوٹ بیچنے میں کسی قسم کادھوکا نہیں دیا تو باہمی رضامندی سے منعقد ہونے والے اس عقدکو زید بکر کی رضا مندی کے بغیر ختم نہیں کرسکتا، ہاں اگر دھوکے کی صورت پائی گئی ہے تو پھر زید اِس عقد کو بکر کی رضا مندی کے بغیر بھی تنہاختم کرسکتا ہے اور اپنی رقم بکر سے واپس لے سکتا ہے۔

ایسی صورت میں دھوکے کی مثال فقہائےکرام نےیہ بیان فرمائی ہے کہ بیچنے والا خریدار سے کہے کہ میرے اِس سامان کی اِتنی قیمت ہے، یا میرا یہ سامان اتنی قیمت کے مساوی (برابر) ہے، (یعنی بازار میں اس شے کی اتنی قیمت کے قریب ہی قیمت ہوتی ہے) خریدار بیچنے والے کی اس بات پر اعتماد کرتے ہوئے،وہ چیز خرید لے، پھر اسے علم ہو کہ بیچنے والےکی بات درست نہیں ہے اور اِس چیز کی قیمت کم ہے تو بیچنے والے کے اِس دھوکے کی وجہ سے خریدار وہ چیز واپس کرسکتا ہے، جبکہ کسی اور وجہ سے شرعاً واپسی کا حق ختم نہ ہوا ہو۔

غبنِ فاحش (قیمت کا اندازہ لگانے والوں کے اندازہ سے زیادہ) کے ساتھ دھوکے سے خریدی گئی چیز کوواپس کرنے کےمتعلق تحفۃ الفقہاء میں علامہ علاؤ الدین سمرقندی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 540ھ) لکھتےہیں؛

و اصحابنا یفتون فی المغبون انہ لایرد و لکن ھذا فی مغبون لم یغر اما فی مغبون غر فیکون لہ حق الرد

ترجمہ: اور ہمارے اصحاب غبن سے خریدی گئی چیزکے بارے میں فتوٰی دیتے ہیں کہ اسے واپس نہیں کیا جائے گا، لیکن یہ فتوٰی اس غبن سے خریدی گئی چیزکے بارے میں ہے کہ جس میں دھوکا نہ ہو، بہرحال جوچیزغبن کے ساتھ دھوکا دے کر فروخت کی گئی تو خریدار کو چیز واپس کرنے کا حق حاصل ہے۔ (تحفۃ الفقھاء، کتاب البیوع، باب الاقالۃ، جلد 2، صفحہ 108، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

غبنِ فاحش کے ساتھ چیز بیچنےمیں دھوکہ پائے جانے کی مثال کےمتعلق العقودالدریۃ فی تنقیح الفتاوٰی الحامدیہ میں ہے:

قالوا في المغبون غبنا فاحشا له أن يرده على بائعه بحكم الغبن و قال أبو علي النسفي فيه روايتان عن أصحابنا و يفتى برواية الرد رفقا بالناس و كان صدر الإسلام أبو اليسر يفتي بأن البائع إن قال للمشتري قيمة متاعي كذا أو قال يساوي كذا فاشترى على ذلك و ظهر بخلافه له الرد بحكم أنه غره وإن لم يقل فليس له الرد وقال بعضهم لا يرد به كيفما كان و الصحيح أنه يفتى بالرد إن غره و إلا فلا

ترجمہ: فقہائےکرام نے فرمایا کہ جس خریدار کو غبن فاحش کیساتھ چیز بیچی جائے،وہ چیز کو غبن فاحش کے حکم کے ساتھ بیچنے والے کو واپس لوٹا سکتا ہے۔ اور امام ابو علی نسفی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ہمارے اصحاب سے اس کے متعلق دو روایتیں ہیں، اور فتوٰی لوگوں کے ساتھ نرمی کرنے کے سبب چیز کو بیچنے والے کی طرف واپس لوٹانے والے قول پر دیا جائے گا۔ اور صدر الاسلام، امام ابوالیسر رحمۃ اللہ علیہ اس قول پر فتوٰی دیتے تھے کہ اگر بیچنے والے نے خریدار سے کہا کہ میرے سامان کی قیمت اتنی ہےیا اس کے برابر ہے، تو خریدار نے اسی قیمت پر چیز کو خرید لیا، اور بعد میں اس کے برخلاف ظاہر ہوا تو خریدار کے لئے جائز ہے کہ وہ چیز کو واپس لوٹا دے کہ اس کو دھوکا دیا گیا ہے اور اگر بیچنے والے نے ایسا نہ کہا ہوتو خریدار کو چیز واپس لوٹانے کا اختیار نہیں ہوگا اور بعض فقہائےکرام نے فرمایا کہ دونوں صورتوں میں خریدار کو چیز واپس لوٹانے کا اختیار نہیں ہوگا۔ اور صحیح یہ ہے کہ اس قول پر فتوٰی دیا جائے گا کہ اگر بیچنے والے نے خریدار کو دھوکا دیا تو چیز واپس کرنے کا اختیار ہوگا، ورنہ نہیں۔ (العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوٰی الحامدیۃ، جلد 1، صفحہ 269، مطبوعہ دار المعرفہ)

یونہی تبیین الحقائق شرح کنزالدقائق،محیط برہانی ،فتح باب العنایہ اور منحۃ الخالق میں ہے۔

صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1367ھ / 1947ء) لکھتے ہیں: ”کوئی چیز غبنِ فاحش کے ساتھ خریدی ہے، اس کی دوصورتیں ہیں: دھوکا دیکر نقصان پہنچایا ہے یا نہیں، اگر غبن فاحش کے ساتھ دھوکا بھی ہے، تو واپس کر سکتا ہے ورنہ نہیں۔ غبن فاحش کا یہ مطلب ہے کہ اتنا ٹوٹا (نقصان) ہے، جو مقومین (قیمت کا اندازہ لگانے والوں) کے اندازہ سے باہر ہو، مثلاً: ایک چیز دس 10 روپے میں خریدی، کوئی اس کی قیمت پانچ بتاتا ہے، کوئی چھ، کوئی سات، تویہ غبنِ فاحش ہے۔‘‘ (بھار شریعت، جلد 2، صفحہ 691، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

ایک اور مقام پر صدرالشریعہ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں: ’’بائع نے اگر مشتری سے کچھ زیادہ دام لے لیے اور مشتری اقالہ کرانا چاہتا ہے تو اقالہ کردینا چاہیے اور اگر بہت زیادہ دھوکا دیا ہے تو اقالہ کی ضرورت نہیں، تنہا مشتری بیع کو فسخ کرسکتا ہے۔‘‘ (بھار شریعت، جلد 2، صفحہ 737، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: OKR-0104

تاریخ اجراء: 09 ربیع الثانی 1447 ھ / 03 اکتوبر 2025 ء