انسانی ہڈیوں کی خرید و فروخت کرنا کیسا؟

انسانی ہڈیوں کی خرید و فروخت کا حکم

دارالافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اِس بارے میں کہ انسانی ہڈیوں کی خرید و فروخت کرنا کیسا؟ اور اگر کسی نے ایسا کر لیا ہے، تو وہ حاصل ہونے والی رقم کا کیا کرے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

انسانی ہڈیاں، انسان کے اجزا ہیں اور انسانی اجزا مال نہیں ہیں، لہذا انسانی ہڈیوں کی خرید و فروخت باطل و ناجائز و گناہ ہے۔ معاذ اللہ اگر کسی نے انسانی ہڈیاں فروخت کرکے رقم حاصل کر لی ہے، تو اُس پر لازم ہے کہ وہ توبہ بھی کرے اور جس شخص سے وہ رقم حاصل کی ہے، اُسے واپس کرے کہ وہ رقم بدستور مشتری (خریدنے والے) کی ملک پر باقی ہے، اِس رقم کو ذاتی استعمال میں لانا، ناجائز و گناہ ہے۔

انسانی اجزا مال نہیں ہیں، لہذا اِن کی خریدو فروخت جائز نہیں ہے، اِس کے متعلق العنایہ میں ہے

”جزء الآدمی لیس بمال۔۔۔ وما لیس بمال لا یجوز بیعہ“

 یعنی: آدمی کا جزو مال نہیں اور جو چیز مال نہ ہو، اس کی خریدوفروخت جائز نہیں۔ (العنایۃ شرح الھدایۃ، جلد6، صفحہ 390، مطبوعہ: کوئٹہ)

جو چیز مال نہ ہو، اُس کی بیع باطل ہے، اِس کے متعلق تنویر الابصار میں ہے ”بطل بیع ما لیس بمال“ ترجمہ: جو چیز مال نہیں، اُس کی بیع باطل ہے۔ (تنویر الابصار، جلد 7، صفحہ234، مطبوعہ: کوئٹہ)

بیع باطل کی صورت میں حاصل ہونے والی رقم کے متعلق فتاوی رضویہ میں ہے ”قیمت کہ زمینداروں نے لی، بدستور ملکِ مشتریان (پرباقی ہے)، اُن (زمینداروں ) پر فرض کہ قیمت پھیریں۔" (فتاوی رضویہ، جلد19، صفحہ427، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب : مولانا محمد سجاد عطاری مدنی

فتوی نمبر : WAT-4459

تاریخ اجراء : 28جمادی الاولی1447 ھ/20نومبر2025 ء