زمین کی قیمت مکمل ادا کرنے سے پہلے خریدار کا انتقال ہوجانا

زمین خریدی اور مکمل قیمت ادا کرنے سے پہلے ہی خریدار کا انتقال ہوگیا تو زمین پر کس کا حق ہوگا ؟

دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے میں کہ زید نے بکر سے ایک زمین نقد خریدی اور ان دونوں کے درمیان بیع مکمل ہوگئی، البتہ قبضے کے متعلق یہ طے پایا کہ جب زید زمین کی مکمل قیمت ادا کر دے گا تو بکر اسے زمین پر قبضہ دے گا۔ اب صورت یہ ہوئی کہ زمین کی قیمت کا اکثر حصہ زید نے ادا کر دیا، لیکن کچھ رقم ابھی باقی تھی کہ زید کا انتقال ہو گیا۔ تو ایسی صورت میں کیا زید کے ورثاء بقیہ رقم ادا کر کے زمین پر قبضہ حاصل کر سکتے ہیں یا بکر زید کے ورثاء کی رضامندی کے بغیر زید سے لی گئی رقم انہیں واپس کر کے زمین کو بطورِ ملک اپنے پاس رکھ سکتا ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جب زید و بکر کے مابین خرید و فروخت کا عقد مکمل ہو چکا تھا تو وہ زمین شرعاً زید کی ملک ہو گئی، قبضہ پر موقوف نہیں۔ نیز عاقدین (یعنی بیچنے اور خریدنے والے) میں سے کسی ایک کے فوت ہو جانے سے عقدِ بیع باطل نہیں ہوتا، اگرچہ خریدار نے ابھی مکمل قیمت ادا نہ کی ہو۔ لہٰذا اب وہ زمین زید کا ترکہ شمار ہوگی اور اس کی بقیہ قیمت زید کے ذمہ دَین (قرض)ہے جو اس زمین سمیت تمام ترکہ سے ادا کی جائے گی۔

اس بنا پر زید کے ورثاء کو حق حاصل ہے کہ وہ بقیہ قیمت بکر کو ادا کر کے اس زمین پر قبضہ حاصل کرلیں۔ بکر کو یہ حق حاصل نہیں کہ زید کے ورثاء کی رضامندی کے بغیر بطورِ خود زید کی ادا کی گئی رقم واپس کر کے زمین بطورِ ملک اپنے پاس رکھ لے۔ البتہ جب تک مکمل قیمت وصول نہیں ہو جاتی، بکر کو اس زمین پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کا حق ہے۔

دلائل درج ذیل ہیں:

بیع صحیح ایجاب و قبول سے ہی منعقد و لازم ہو جاتی ہے اور مبیع بائع کی ملکیت سے نکل کر مشتری کی ملک میں آجاتی ہے، مبیع پر قبضہ کر لینے پر موقوف نہیں ہوتی۔ محقق علی الاطلا ق ابن ہمام رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

”كل تصرف لا يتم إلا بالقبض كالهبة والصدقة۔۔۔ بخلاف البيع والاجارة فإنه يلزم بنفسه“

ترجمہ: ہر وہ تصرف جو قبضے کے بغیر تام نہیں ہوتا جیسے ہبہ اورصدقہ۔۔۔ بخلاف بیع اور اجارہ کے، کیونکہ بیع اور اجارہ (قبضے کے بغیر) نفسِ بیع و اجارہ کے عقد ہی سے لازم ہوجاتے ہیں۔ (فتح القدير، ج6، ص512، دار الفکر)

نیز امام احمد رضا خان رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

”والملک فی البیع الصحیح یزول بمجرد العقد من دون توقف علی القبض“

ترجمہ: بیع صحیح میں ملکیت محض عقد کے منعقد  ہونےسے ہی بائع سے زائل (ہو کر مشتری کی طرف منتقل) ہو جاتی ہے،  (خریدار کے) قبضہ پر موقوف  نہیں ہوتی۔ (فتاوی رضویہ، ج20، ص99، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

اور عاقدین میں سے کسی ایک کے انتقال سے عقدِ بیع باطل یا فسخ نہیں ہوتا۔ نہایہ شرح الہدایہ نیز فتح باب العنایہ شرح النقایہ میں ہے،

والنص للآخر: ”ثم العقد على العين لا يبطل بموت أحد العاقدين“

ترجمہ: عین پر عقد عاقدین میں سے کسی کے انتقال کی وجہ سے باطل نہیں ہوتا۔ (فتح باب العنایہ شرح النقایہ، ج2، ص445، دار الأرقم بن أبي الأرقم، بيروت)

قیمت کی ادائیگی مکمل نہ ہونے کے باوجود خریدار کے انتقال سے عقدِ بیع باطل نہیں ہوتا، اسی اصل پر یہ مسئلہ متفرع ہے کہ اگر مبیع ابھی تک بائع ہی کے قبضے میں ہو تو بائع کو اس مبیع کے ذریعے اپنا دین وصول کرنے میں دیگر قرض خواہوں پر ترجیح حاصل ہوگی، جیسا کہ مجمع الانھر نیز درر الحكام شرح غرر الاحكام میں ہے،

والنص للآخر: ”(اشترى شيئا وقبضه ومات مفلسا قبل نقد ثمنه فالبائع أسوة الغرماء) يعني اشترى شيئا وقبضه ولم ينقد الثمن حتى مات مفلسا فالبائع أسوة الغرماء يقتسمونه ولا يكون البائع أحق به وعند الشافعي هو أحق به، وإنما قال قبضه إذ لو لم يقبضه فالبائع أحق به اتفاقا“

 ترجمہ: اگر کسی نے کوئی چیز خریدی اور اسے قبضے میں لے لیا، پھر قیمت ادا کرنے سے پہلے ہی وہ مفلس (دیوالیہ) ہو کر مر گیا تو بیچنے والا دیگر قرض خواہوں کے برابر شمار ہوگا۔یعنی اس چیز کی قیمت تمام قرض خواہوں میں تقسیم ہوگی، اور بیچنے والا اس چیز پر دوسرے قرض خواہوں سے زیادہ حق دار نہ ہوگا۔امام شافعی کے نزدیک بیچنے والا اس چیز کا زیادہ حق دار ہے۔یہ جو فرمایاکہ ”قبضہ کرلیا ہو“ اس لیے کہ اگر خریدار نے ابھی چیز قبضے میں لی ہی نہ ہو تو پھر بیچنے والا بلا اختلاف اس چیز کا زیادہ حق دار ہوگا۔ (درر الحكام شرح غرر الاحكام، ج2، ص151، دار إحياء الكتب العربية)

اس کی وجہ یہ ہے کہ بائع کو جب تک پوری قیمت وصول نہ ہو، مبیع پر قبضہ برقرار رکھنے کا حق حاصل رہتا ہے، لہٰذا وہ اس کے ذریعے اپنا دین وصول کرنے کا دوسروں کی نسبت زیادہ حق دار ہے۔ تاہم یہ حق بائع کو بطورِ مالک حاصل نہیں، بلکہ یہ حق اُسے محض دائن (قرض خواہ) ہونے کی حیثیت سے حاصل ہے، کیونکہ عقدِ بیع مکمل ہونے کے بعد مبیع کی ملکیت خریدار کو منتقل ہو چکی ہوتی ہے اور اس کی موت کے بعد مبیع پر اس کے ورثاء کا حق ثابت ہوجاتا ہے۔ لہٰذا بائع کو یہ اختیار نہیں کہ وہ ازخود مبیع اپنے پاس رکھ لے اور خریدار کے ورثاء کو ادا کی گئی رقم واپس کر دے۔چنانچہ علامہ ابن عابدین شامی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

”الظاهر أن المراد أنه أحق بحبسه عنده حتى يستوفي الثمن من مال الميت أو يبيعه القاضي ويدفع له الثمن، فإن وفى بجميع دين البائع فبها، وإن زاد دفع الزائد لباقي الغرماء، وإن نقص فهو أسوة للغرماء فيما بقي له، وليس المراد بكونه أحق به أنه يأخذه مطلقا، إذ لا وجه لذلك؛ لأن المشتري ملكه وانتقل بعد موته إلى ورثته وتعلق به حق غرمائه، وإنما كان أحق من باقي الغرماء؛ لأنه كان له حق حبس المبيع إلى قبض الثمن في حياة المشتري فكذا بعد موته“

ترجمہ: ظاہر یہی ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ بیچنے والا اس چیز کو اپنے پاس روکنے کا زیادہ حق رکھتا ہے یہاں تک کہ اسے میت کے ترکے سے اپنی رقم وصول ہوجائے، یا قاضی اس چیز کو فروخت کر کے اس کی قیمت بیچنے والے کو ادا کرے۔ اگر اس قیمت سے بیچنے والے کا پورا قرض ادا ہوجائے تو ٹھیک ہے، اور اگر قیمت زیادہ ہو تو زائد رقم باقی قرض خواہوں کو دی جائے گی، اور اگر قیمت کم ہو تو باقی ماندہ رقم کے سلسلے میں بیچنے والا دیگر قرض خواہوں کے برابر ہوگا۔ اس بات کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اس چیز کو مطلقاً (بلا قید و شرط) لینے کا حق رکھتا ہے، کیونکہ خریدار اس چیز کا مالک بن چکا تھا، اور اس کی موت کے بعد وہ چیز اس کے ورثہ کو منتقل ہوگئی اور اس پر تمام قرض خواہوں کا حق متعلق ہوگیا۔ بیچنے والا صرف اس لیے دیگر قرض خواہوں سے زیادہ حق دار ہے کہ اسے خریدار کی زندگی میں بھی قیمت وصول ہونے تک فروخت شدہ چیز کو روکنے کا حق حاصل تھا، لہٰذا خریدار کی وفات کے بعد بھی یہی حق برقرار رہتا ہے۔ (الدر المختار ورد المحتار، ج4، ص564، دار الفکر)

نیز امام احمد رضا خان رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ”جب بیع صحیح شرعی واقع ہولے تو اس کے بعد بائع یا مشتری کسی کے بے رضامندی دوسرے کے اس سے یوں پھر جانا روا نہیں، نہ ا س کے پھر نے سے وہ معاہدہ جو مکمل ہوچکا ٹوٹ سکتا ہے، زید پر لازم ہے کہ مال فروخت شدہ تمام و کمال خریدار کو دے۔۔۔ ہاں! پہلے مشتری کو چاہیے کہ ثمن ادا کرے، بائع کو اختیار ہے کہ جب تک ثمن نہ لے مبیع سپرد نہ کرے۔“ (فتاوی رضویہ، ج17، ص87، 89، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

لہٰذا اس زمین کی بقیہ قیمت زید کے ترکہ سے ادا کی جائے گی، اور اسے ورثاء میں تقسیمِ ترکہ سے مقدم کیا جائے گا، کیونکہ شرعاً ترکہ میں سب سے پہلے کفن و دفن کے اخراجات نکالے جاتے ہیں، اس کے بعد میت کے ذمے واجب الاداء دیون (قرضے) ادا کیے جاتے ہیں، پھر اگر کوئی وصیت ہو تو ایک تہائی مال میں اسے نافذ کیا جاتا ہے، اور اس کے بعد باقی مال ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کیا جاتا ہے جیسا کہ الاختیار لتعلیل المختار میں ہے:

يبدأ من تركة الميت بتجهيزه ودفنه على قدرها ثم تقضى ديونه، ثم تنفذ وصاياه من ثلث ماله، ثم يقسم الباقي بين ورثته

ترجمہ: میت کے ترکہ میں سب سے پہلے اس کے تجہیز و تکفین (کفن دفن) کے اخراجات اس کی حیثیت کے مطابق نکالے جائیں، پھر اس کے قرض ادا کیے جائیں، پھر اس کے مال کے تہائی حصے سے اس کی وصیت پوری کی جائے، اور جو باقی بچے اسے اس کے ورثاء میں تقسیم کیا جائے۔ (الاختیار لتعلیل المختار، ج5، ص85، دار الكتب العلمية، بيروت)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب: مفتی  محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:  HAB-0654

تاریخ اجراء: 22ربیع الآخر 1447ھ/16اکتوبر 2025 ء