ادھار خرید و فروخت میں ایک شرعی خرابی اور بیع فاسد کی آمدنی کا حکم

ادھار خریداری میں ایک شرعی خرابی اور بیع فاسد کی آمدن کا حکم

دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ زید نے عَمْرْو کی دُکان سے تقریباً ایک لاکھ کا اُدھار سامان لیا اور دونوں کے مابین قیمت کی ادائیگی کی کوئی مدت متعین نہیں ہوئی اور نہ ہی ان کے مابین ادھار کے معاملے میں کوئی عرف و عادت متعین ہے اور بائع کی جانب سے رقم مانگنے پر کبھی رقم ملتی ہی نہیں اور کبھی ملتی ہے تو تھوڑی تھوڑی، البتہ رقم پوری وصول کر لی ہے، پوچھنا یہ ہے کہ مذکورہ عقد جس میں مدت کی تعیین ہی نہیں، اس کا کیا حکم ہے؟ نیز زید(خریدار) نے اس سامان کو آگے فروخت کر کے جو نفع حاصل کیا ہے، اس کا کیا حکم ہے؟ برائے کرم شرعی رہنمائی فرما دیں۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

صورت مسئولہ میں مذکورہ طریقے سے خرید و فروخت درست نہیں، بلکہ فاسد وناجائز ہے، کہ ادھار خرید و فروخت کی صورت میں رقم کی ادائیگی کے لیے متعین مدت کا ذکر ضروری تھا، جبکہ یہاں ایسا نہیں ہوا، جس وجہ سے عقد فاسد اور زید(خریدار) و عمرو (بیچنے والا) دونوں گنہگار بھی ہوئے۔ اس عقد کا اصل حکم یہ تھا کہ زید سامان اور عَمْرْو اس کے بدلے پیسے نہ لیتا۔ جب عمرو نے سامان دے دیا اور رقم لے لی تو زید سامان کا اور عمرورقم کا ملک ِخبیث کے ساتھ مالک ہوگیا اور اب بھی ان پر واجب تھا کہ بیع کو فسخ کرکے سامان اور پیسے ایک دوسرے کو واپس کردیں، ایسی صورت میں فسخ نہ کرنا اور مالکانہ تصرف کرنا گناہ ہے۔اس کے بعد واپس کرنے کی بجائے جب زید نے سامان پر مالک کی اجازت سے قبضہ کرکے اس کو آگے بیچ دیا تو اگرچہ یہ عمل جائز نہ تھا، لیکن اب عقد فسخ نہیں ہو سکتا، بلکہ زید پر سامان کی مثل ہونے کی صورت میں مثل، ورنہ رقم کی ادائیگی لازم ہوگئی۔ اور وہ رقم عمرو کےلیے حلال ہو گی۔

رقم کی ادائیگی میں قبضہ کرنے کے وقت جواس سامان کی مارکیٹ ویلیوتھی، صرف اتنی رقم عمرو (بیچنے والے) کوملے گی، اگراس سے زائدرقم لے چکا تووہ واپس کرے اوراس سے کم لی تو خریدار سے وصول کرلے۔ نیز زید نے سامان بیچ کر جو رقم حاصل کی اس میں سے اصل رقم کے علاوہ فقط حاصل ہونے والا نفع زید پر صدقہ کرنا واجب ہے، اگر زید وہ رقم استعمال کرچکا ہے تو (نفع کی) اتنی رقم اپنے پاس سے صدقہ کرے اور زید وعمرو دونوں توبہ بھی کریں۔

علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں

’’معلومیۃ المبیع ومعلومیۃ الثمن بما یرفع المنازعۃ فلا یصح بیع شاۃ من ھذا القطیع۔۔۔ معلومۃ الأجل فی البیع المؤجل ثمنہ

 ترجمہ:  مبیع اور ثمن کا اس طرح معلوم ہونا کہ نزاع ختم ہوجائے لہٰذااس طرح بیع کرنا صحیح نہیں کہ اس ریوڑ میں سے ایک بکری بیچی۔۔۔۔۔جس بیع میں ثمن ادھار ہوتو اس میں مدت کا معلوم ہونا بھی شرط ہے۔ (رد المحتار، کتاب البیوع، جلد4، صفحہ505، دار الفكر، بيروت)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

’’منھا معلومیۃ الاجل فی البیع بثمن مؤجل فیفسد ان کان مجھولا‘‘

 ترجمہ: بیع کے صحیح ہونے کی شرائط میں سے ایک شرط ادھار ثمن کی بیع میں مدت کا معلوم ہونا ہے، لہٰذا اگر مدت مجہول ہوئی تو بیع فاسد ہوجائے گی۔ (فتاوی عالمگیری، کتاب البیوع، جلد3، صفحه3، دار الفكر، بيروت)

ملک العلماء امام علاء الدین ابو بکر بن مسعود کاسانی حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

”البيع الفاسد واجب الفسخ حقا للشرع رفعا للفساد“

 ترجمہ: فساد کو دور کرنے کے لیے بیع فاسد کو فسخ کرناشرع کے حق کی وجہ سے واجب ہے۔ (بدائع الصنائع، جلد4، صفحہ102، دار الكتب العلمية، بيروت )

تنوير الابصار، درمختار اور رد المحتار میں ہے:

’’یجب علی کل واحد منھما فسخہ قبل القبض۔۔۔ او بعدہ ما دام المبیع بحالہ (احترز بہ عما اذا عرض علیہ ما تعذر بہ ردہ مما یمنع الفسخ کما یاتی بیانہ) فی ید المشتری اعداما للفساد لانہ معصیۃ فیجب رفعھا

ترجمہ: قبضہ سے پہلے ان دونوں میں سے ہر ایک پر بیع فاسدکو فسخ کرنا واجب ہے یا قبضے کے بعد جب تک مبیع مشتری کے قبضے میں اسی حالت پرہو۔ اس صورت سے احتراز ہے جب اس پر ان امور میں سے جو فسخ سے مانع ہے کوئی امر عارض ہوجائے۔ جیسا کہ اس کا بیان آئے گا۔ (وجہِ فسخ )فساد کو ختم کرنے کے لئے، کیونکہ یہ گناہ ہے تو اسے ختم کرنا واجب ہے۔ (رد المحتار، کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، جلد5، صفحہ90، 91، دار الفكر، بيروت)

نیز مذکورہ بالا کتب میں ہے:

’’اذا قبض المشتری المبیع برضا۔۔۔بائعہ صریحا او دلالۃ۔۔۔فی البیع الفاسد۔۔۔۔ولم ینھہ۔۔۔ ملکہ (ملکا خبیثا حراما فلا یحل اکلہ ولا لبسہ)‘‘

 ترجمہ: جب مشتری نے مبیع پہ، بائع کی صراحتا یا دلالۃ اجازت سے قبضہ کرلیا اور بائع نے اس سے روکا نہیں تو وہ اس کا مالک ہوجائے گا یعنی ملک خبیث حرام کےساتھ تو اس کے لیے اسے کھانا اور پہننا حلال نہیں۔ (رد المحتار، کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، جلد5، صفحہ88، 89، مطبوعہ کوئٹہ)

برہان الدین محمود بن احمد بن عبد العزیز بخاری حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

تطيب قيمة المبيع للبائع في البيع الفاسد عند عجز المشتري عن رد العين؛ لأنه بدل ملكه، لكن يأثم بمباشرته هذا العقد لأنه معصية“

 ترجمہ: (جب) مشتری عین مبیع لوٹانے سے عاجز ہو تو بائع کے لیے بیع فاسد میں مبیع کی قیمت طیب ہوتی ہے، کیونکہ یہ اس کی ملکیت کابدل ہے، لیکن وہ یہ عقدکرنے کی وجہ سے گنہگار ہوگا، کہ ایساعقدکرناگناہ ہے۔ (المحیط البرھانی، جلد7، صفحہ467، دارالکتب العلمیۃ، بیروت)

تنویر الابصار و  در مختار میں ہے

’’انما طاب للبائع ماربح فی الثمن۔۔۔لا یطیب للمشتری ما ربح فی بیع یتعین بالتعیین بان باعہ بازید لتعلق العقد بعینہ فتمکن الخبث فی الربح فیتصدق بہ‘‘

ترجمہ: (بیع فاسد میں )بائع کے لیے وہ نفع پاک ہے جو اس نے قیمت کے ذریعے کمایا، خریدار کے لیے وہ نفع پاک نہیں ہے جو اس نے متعین مبیع سے کمایا بایں طور کہ اس نے اس چیز کو زیادہ قیمت کے بدلے بیچ دیا کیونکہ عقد اس متعین چیز سے متعلق ہوتا ہے توخباثت نفع میں بھی آگئی لہٰذا اس نفع کو صدقہ کردے۔

مذکورہ بالا قول " طاب للبائع ما ربح لا للمشتری " کےتحت رد المحتار میں ہے:

’’صورۃ المسالۃ ما ذکرہ محمد فی الجامع الصغیر: رجل اشتری من رجل جاریۃ بیعا فاسدا بالف درھم و تقابضا و ربح کل منھما فیما قبض یتصدق الذی قبض الجاریۃ بالربح و یطیب الربح للذی قبض الدراھم‘‘

ترجمہ: مسئلہ کی صورت وہ ہے جسے امام محمد نے جامع صغیر میں ذکر کیا ہے کہ ایک شخص نے دوسرے سے بیع فاسد کے ذریعے ایک ہزار درہم کی لونڈی خریدی، پھر دونوں نے حاصل شدہ مال سے نفع کمایا تو جس نے لونڈی لی تھی وہ نفع کو صدقہ کرے اور جس نے درہم لیے تھے اس کے لیے نفع پاک ہے۔ (رد المحتار، کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، جلد5، صفحہ96، 97، دار الفکر، بیروت)

شیخ الاسلام اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ شارح کے قول "والخبث لفساد الملک " کے تحت "جد الممتار" میں فرماتے ہیں:

’’أقول: فتحصل من هذا كلّه: أنّ الخبث إذا كان لفساد الملك يعمل فيما يتعيّن لا فيما لا يتعيّن، فإذا ملك عيناً ملكاً خبيثاً لا يطيب له هو ولا رِبْحه، نعم إذا باعه و اتّجر في ثمنه طاب لزوال التعيّن، و إذا ملك نقداً  كذلك لَم يطب لخباثة الملك، لكن يطيب الرِّبح لعدم التعيّن، فالطيب يحصل لمالك النقد في الدرجة الثانية يعنِي: إذا اشترى به شيئاً شراءً صحيحاً طاب له وإن كان ملكه للنقد خبيثاً‘‘

 ترجمہ: میں کہتا ہوں: پس اس تمام سے یہ حاصل ہوا کہ خبث جب ملک کے فساد کی وجہ سے ہو تو یہ ان اشیا میں عمل کرتا ہے جو متعین ہو جاتی ہیں اور ان میں عمل نہیں کرتا جو متعین نہیں ہوتیں، پس جب ملک خبیث کے ساتھ عین کا مالک ہوا تو نہ وہ چیز اس کے لیے پاک ہے اور نہ اس کا نفع ہی پاک ہے۔ہاں جب اس نے اس کو بیچا اور اس کے ثمن میں تجارت کی تو تعین ختم ہوجانے کی وجہ سے وہ پاک ہے۔ اور جب ملک خبیث کے ساتھ نقدی کا مالک ہوا تو ملک کی خباثت کی وجہ سے وہ پاک نہیں لیکن تعین نہ ہونے کی وجہ سے نفع پاک ہوگا۔ لہٰذا نقدی کے مالک کو دوسرے درجے میں پاک چیز حاصل ہوئی یعنی جب اس نے اس کے بدلے کوئی چیز صحیح عقد کے ساتھ خریدی تو وہ اس کے لیے پاک ہے اگرچہ اس کی ملک نقدی میں خبیث تھی۔(جد الممتار، جلد6، باب بیع الفاسد، صفحہ92، مکتبۃ المدینہ، کراچی )

صدر الشریعہ بدر الطریقہ مولانا امجد علی اعظمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’بیع فاسد میں مشتری پر اولا یہی لازم ہے کہ قبضہ نہ کرے اور بائع پر لازم ہے کہ منع کردے بلکہ ہر ایک پر بیع فسخ کردینا واجب اور قبضہ کرہی لیا تو واجب ہے کہ بیع کو فسخ کر کے مبیع کو واپس کر لے یا کر دے فسخ نہ کرنا گناہ ہے اور اگر واپسی نہ ہوسکے مثلا مبیع ہلا ک ہوگئی یا ایسی صورت پیدا ہوگئی کہ واپسی نہیں ہوسکتی تو مشتری مبیع کی مثل واپس کرے اگر مثلی ہو اور قیمی ہو تو قیمت ادا کرے (یعنی اس چیز کی واجبی قیمت، نہ کہ ثمن جو ٹھہرا ہے )اور قیمت میں قبضہ کے دن کا اعتبار ہے یعنی بروز قبض جو اس کی قیمت تھی وہ دے۔۔۔ موانع فسخ یہ ہیں۔ بیع فاسد میں مشتری نے قبضہ کرنے کے بعد اس چیز کو بائع کے علاوہ دوسرے کے ہاتھ بیچ ڈالا اور یہ بیع صحیح بات ہو۔‘‘ (بھار شریعت، جلد2، حصہ 11، صفحہ714، 715، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

نیز بہار شریعت میں ہے: ”کوئی چیز معین مثلاً کپڑا یا کنیزسوروپے میں بیع فاسد کے طور پر خریدی اور تقابض بدلین بھی ہوگیا، مشتری نے مبیع سے نفع اُٹھایا مثلاً اسے سواسومیں بیچ دیا اور بائع نے ثمن سے نفع اُٹھایا کہ اُس سے کوئی چیز خرید کر سواسو میں بیچی تومشتری کے لیے وہ نفع خبیث ہے صدقہ کردے اور بائع نے ثمن سے جو نفع حاصل کیا ہے اُ س کے لیے حلال ہے۔“ (بھار شریعت، جلد2، حصۃ 11، صفحہ 718، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب: محمد ساجد عطاری

مصدق: مفتی ابوالحسن  محمد ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر: NRL-0283

تاریخ اجراء: 08ذو الحجۃ الحرام 1446ھ / 05 جون 2025ء