دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص نے دکان سے 6 انڈے خریدے، گھر جاکر ان کو استعمال کیا، توبقیہ انڈے تو ٹھیک نکلے، لیکن ان میں سے ایک انڈا خراب نکلا اور اس خراب انڈے سے کسی طرح فائدہ حاصل کرنا بھی ممکن نہیں، تو کیا یہ خراب انڈا دکاندار کو واپس کرکے اس کی قیمت لی جاسکتی ہے یا نہیں یعنی مشتری کو واپس کرنے کا اختیار حاصل ہوگا ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں جو انڈا توڑنے کے بعد بالکل خراب نکلا، تو اس انڈے کی قیمت دکاندار سے واپس طلب کی جا سکتی ہے کہ بالکل خراب نکلنے والا انڈا ناقابل انتفاع ہونے کی وجہ سے مال متقوم (شرعاًقیمتی مال) نہیں ہے اور جو چیز مال ِ متقوم نہ ہو، ا س کی بیع باطل ہوتی ہے یعنی اس چیز میں عقدِ بیع اصلاً منعقد ہی نہیں ہوتا اور ایسی صورت میں خریدنے والا، وہ چیز بیچنے والے کو واپس کرکے اس کی قیمت لے سکتا ہے۔
انڈا توڑنے کے بعد خراب نکلا، تو مشتری کو واپس کرنے کا اختیار حاصل ہوگا، چنانچہ مہذِّب مذہبِ مہذَّب، امام محمد بن حسن شیبانی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 189ھ/804ء) لکھتے ہیں:
’’اذا اشترى الرجل بيضا فوجده فاسدا كله وقد كسره فله ان يرده ويأخذ الثمن كله“
ترجمہ: جب ایک شخص نے انڈا خریدا تو اسے مکمل خراب پایا حالانکہ وہ اسے توڑ چکا تھا، تو اسے واپس کرنے اور پوری قیمت واپس لینے کا حق حاصل ہے۔ (کتاب الاصل، جلد2، صفحہ 500، مطبوعہ دار ابن حزم، بیروت)
مكمل انڈا خراب نکلنے کی صورت میں اصل بیع ہی اس انڈے میں باطل قرار پائے گی، جیساکہ المبسوط للسرخسی میں ہے:
’’إذا اشترى ...بيضا فوجده فاسدا كله وقد كسره فله أن يرده ويأخذ الثمن كله، أما البيض فالفاسد منه ليس بمال متقوم إذ هو غير منتفع به ولا قيمة لقشره فتبين أن أصل البيع كان باطلا “
ترجمہ: جب کسی شخص نے انڈا خریدا تو اسے مکمل خراب پایا حالانکہ وہ اسے توڑ چکا تھا، تو اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ اسے واپس کر دے اور پوری قیمت واپس لے لے۔ جہاں تک انڈے کا تعلق ہے، تو خراب انڈہ قابلِ قیمت مال نہیں کیونکہ اس سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کے چھلکے کی کوئی قیمت ہوتی ہے، لہٰذا یہ واضح ہو گیا کہ (اس خراب انڈے میں) اصل بیع ہی باطل تھی۔ (المبسوط للسرخسی، جلد 13، صفحہ 114، مطبوعہ دار المعرفہ، بیروت)
ایک انڈا خراب نکلا تو اسی کی قیمت مشتری لے سکتا ہے، جیساکہ بحرالرائق شرح کنز الدقائق میں ہے:
’’اشترى عددا من البطيخ أو الرمان أو السفرجل فكسر واحدا واطلع على عيب رجع بحصته من الثمن“
ترجمہ: اگر کسی نے چند تربوز، انار یا سفرجل (ایک قسم کا پھل) خریدے، پھر ایک کو توڑا اور اس میں عیب پایا، تو وہ صرف اس (عیب دار) حصے کی قیمت واپس لے سکتا ہے۔ (بحرالرائق شرح کنز الدقائق، جلد 6، صفحہ 60، مطبوعہ دار الکتاب الاسلامی )
بعینہ صورت مسئولہ کے متعلق فتاوی فیض الرسول میں سوال ہواکہ مرغی کا انڈا بیچنے والے سے انڈا خرید لیا اور توڑنے پر خراب نکلا تو انڈا بیچنے والے پر اس کی قیمت واپس کرنا ضروری ہے یا نہی؟ اس کے جواب میں مفتی جلال الدین امجدی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: انڈا خراب نکلا تو بیچنے والے پر اس کی قیمت واپس کرنا فرض ہے اگر نہیں واپس کرے گا تو حق العبد میں گرفتار ہوگا۔ بہار شریعت (حصہ 11، صفحہ 684، مکتبۃ المدینہ کراچی) میں ہے کہ "انڈا خریدا تو ڑا تو گندہ نکلا، کُل دام واپس ہوں گے وہ بیکا ر چیز ہے، بیع کے قابل نہیں۔ (فتاوی فیض الرسول، جلد 2، صفحہ 540، مطبوعہ اکبر بک سیلز لاھور )
جو چیز مالِ مقتوم نہ ہو اس کی بیع "باطل" کہلاتی ہے جیساکہ ملک العلماء علامہ کاسانی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 587ھ/1191ء) لکھتے ہیں:
’’ولو اشترى مأكولا في جوفه كالبطيخ والجوز والقثاء والخيار والرمان والبيض ونحوها فكسره فوجده فاسدا۔۔۔، فإن وجده كله فاسدا فإن كان مما لا ينتفع به أصلا فالمشتري يرجع على البائع بجميع الثمن؛ لأنه تبين أن البيع وقع باطلا؛ لأنه بيع ما ليس بمال، وبيع ما ليس بمال لا ينعقد“
ترجمہ اور اگر کسی نے کھانے کی کوئی ایسی چیز خریدی جس کے اندر کچھ ہو جیسے تربوز، اخروٹ، ککڑی، کھیرا، انار اور انڈا وغیرہ، پھر اسے توڑا تو خراب پایا۔ پس اگر اسے پورا ہی خراب پایا اور وہ ایسی چیز ہو جس سے بالکل بھی فائدہ نہ اٹھایا جا سکے، تو خریدار بیچنے والے سے پوری قیمت واپس لے گا، کیونکہ یہ واضح ہو گیا کہ(اس چیز میں) بیع ہی باطل ہوئی؛ اس لیے کہ یہ ایسی چیز کی بیع تھی جو مال ہی نہیں تھا، اور جو چیز مال نہ ہو اس کی بیع منعقد نہیں ہوتی۔ (بدائع الصنائع، جلد5، صفحہ 284، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)
بیع باطل کی تعریف کے متعلق علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات: 1252ھ/1836ء) لکھتے ہیں:
”وأما الباطل وهو ما لا يكون مشروعا لا بأصله ولا بوصفه‘‘
ترجمہ: اور”باطل“ وہ کہ جو نہ اصل کے لحاظ سے مشروع ہو اور نہ ہی وصف کے اعتبار سے مشروع ہو۔ (ردالمحتار مع درمختار، جلد7، صفحہ232، مطبوعہ کوئٹہ)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: FSD -9515
تاریخ اجراء: 22 ربیع الاول 1447ھ 16ستمبر 2025ء