کچھوا خرید و فروخت کرنا کیسا؟

کچھوے کی خرید و فروخت کا حکم

دار الافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کچھوا بیچنا کیسا ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

کچھوا خواہ خشکی کا ہو یا تری کا اس کی خرید و فروخت جائز نہیں کہ یہ خبائث حشرات سے ہے۔

ہدایہ میں ہے

و السلحفاة من خبائث الحشرات

ترجمہ: کچھوا خبائثِ حشرات میں سے ہے۔ (الهداية، جلد 4، صفحہ 352، دار احياء التراث العربي، بيروت)

سمندری کچھوے کے متعلق فتح القدیر میں ہے

و لا يجوز بيع شيء من البحر إلا السمك كالضفدع و السرطان و السلحفاة و فرس البحر و غير ذلك

یعنی: پانی کے جانوروں میں مچھلی کے علاوہ کسی بھی چیز کی خرید و فروخت جائز نہیں جیسا کہ مینڈک، کیکڑا، کچھوا اور دریائی گھوڑا وغیرہ۔ (فتح القدیر، جلد 6، صفحہ 422، مطبوعہ: مصر)

خشکی کے کچھوے کے متعلق بدائع الصنائع میں ہے

و لا ينعقد بيع الحية، و العقرب، و جميع هوام الأرض كالوزغة، و الضب، و السلحفاة، و القنفذ، و نحو ذلك؛ لأنها محرمة الانتفاع بها شرعا؛ لكونها من الخبائث فلم تكن أموالا فلم يجز بيعها

یعنی: سانپ، بچھو، اور تمام حشرات الارض جیسا کہ چھپکلی، گوہ، کچھوا اور جھینک (کانٹوں والا چوہا) وغیرہ کی بیع منعقد نہیں ہوتی کیونکہ شرعا ان سے نفع اٹھانا حرام ہے ان کے خبیث ہونےکی وجہ سے، پس یہ مال نہیں لہذا ان کی بیع جائز نہیں۔(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، جلد 5، صفحہ 144، دار الكتب العلمية، بیروت)

شیخ الحدیث علامہ عبد المصطفی اعظمی علیہ الرحمہ اپنی مایہ ناز کتاب جنتی زیور میں لکھتے ہیں: ”مچھلی کے سوا پانی کے تمام جانور مینڈک، کچھوا، کیکڑا وغیرہ اور حشرات الارض چوہا، سانپ، گرگٹ، گوہ، بچھو، چیونٹی وغیرہ کو خریدنا اور بیچنا جائز نہیں۔“ (جنتی زیور، صفحہ 434، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد ابوبکر عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4422

تاریخ اجراء: 19 جمادی الاولٰی 1447ھ / 11 نومبر 2025ء