دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہماری موبائل کی دوکان ہے، اس میں ہم کسٹمر کو ہینڈ فری اور Airpods بیچتے ہیں، اب ان دونوں کا اچھا استعمال بھی ہے کہ ان سے تلاوت قرآن، نعت، وغیرہ سنی جائے اور ان کا بُرا استعمال بھی ہے کہ ان کو لگا کر گانا وغیرہ سنا جائے۔ ہمیں معلوم نہیں ہوتا کہ ہم سے ہینڈ فری اور Airpods خریدنے والا ان کا جائز استعمال کرے گا یا نہیں، تو سوال یہ ہے کہ ہمارا یہ چیزیں بیچنا جائز ہے یا نہیں ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب سے پہلے یہ بات ذہن نشین رکھیں کہ شریعتِ اسلامیہ کا ایک بنیادی اصول ہے کہ ہر وہ چیز جو ناجائز کام کی طرف لے جانے میں متعین ہو یا جس کا مقصودِ اعظم ہی گناہ کا حصول ہو، تو اسے فروخت کرنا، ناجائز و گناہ ہے، کیونکہ یہ گناہ پر معاونت کرنا ہے اور قرآن پاک میں گناہ پر معاونت کرنے سے منع فرمایا گیا ہے، البتہ ایسی چیز جو گناہ کے لیے متعین نہ ہو لیکن معصیت اور غیرِ معصیت دونوں میں استعمال ہونے کی صلاحیت رکھتی ہو اور خریدنے والے کی نیت بھی معلوم نہ ہو تو اسے بیچنا جائز ہے اور یہ گناہ پر مدد نہیں کہلائے گا۔
اس اصول کی روشنی میں آپ کے سوال کا جواب بھی واضح ہوگیا اور وہ یہ ہے کہ آپ کا ہینڈ فری اور Airpods بیچنا جائز ہے کیونکہ یہ دونوں چیزیں نہ تو گناہ کے کام کی طرف لے جانے میں متعین ہیں اور نہ ہی ان کا مقصود اعظم گناہ کا حصول ہے بلکہ ان کا اچھا اور برا دونوں طرح کا استعمال ہوتا ہے، اور جب کوئی چیز فی نفسہ معصیت اور غیرِ معصیت میں استعمال ہونے کی صلاحیت رکھتی ہو اور گناہ کے لیے متعین نہ ہو تو اسے بیچنا جائز ہوتا ہے، کیونکہ ممکن ہے کہ خریدنے والا گناہ والے کاموں میں استعمال نہ کرے، تو یوں ا س کے استعمال کا تعین خریدنے والے کے ارادے پر ہی موقوف ہو گا کہ وہ ان کا کس طرح استعمال کرتا ہے، برا استعمال کرے گا تو اس کا ذمہ دار وہ خود ہوگا، بیچنے والے پر اس کا وبال نہیں ہوگا۔
گناہ پر تعاون نہ کرنے کے بارے میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے
﴿وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ﴾
ترجمہ: اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو۔ (پارہ 6، سورۃ المائدۃ، آیت 2)
اس آیت کے تحت امام ابو بکر احمد الجصاص علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں:
”﴿وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ﴾ نهي عن معاونة غيرنا على معاصی اللہ تعالى“
ترجمہ: آیت کریمہ میں اللہ تعالی کی نافرمانی والے کاموں میں دوسرے کی مدد کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ (احکام القرآن، جلد 2، صفحہ 429، مطبوعہ کراچی)
جس چیز کے عین کے ساتھ معصیت قائم ہو، اُسے بیچنے کے بارے میں علامہ علاؤ الدین حصکفی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
”قلت: وأفاد كلامهم أن ما قامت المعصية بعينه يكره بيعه تحريما“
ترجمہ: میں کہتا ہوں کہ ان فقہاء کا کلام اس بات کا فائدہ دیتا ہے کہ جس چیز کے عین کے ساتھ معصیت قائم ہو، اسے بیچنا مکروہ تحریمی ہے۔ (در مختار، کتاب الجھاد، باب البغاۃ، جلد 6، صفحہ 409، مطبوعہ کوئٹہ)
ایسی چیز کو بیچنے کے ناجائز ہونے کی وجہ کو بیان کرتے ہوئے علامہ ابن نجیم رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
”وظاهر كلامهم في الأول أن الكراهة تحريمية لتعليلهم بالإعانة على المعصية“
ترجمہ: فقہاء کے کلام کا ظاہر یہ ہے کہ اس صورت میں کراہت سے مراد کراہت تحریمی ہے، کیونکہ انہوں نے یہ علت بیان کی ہے کہ اسے بیچنا گناہ پر مدد کرنا ہے۔ (بحر الرائق، کتاب السیر، باب البغاۃ، جلد 5، صفحہ 240، مطبوعہ کوئٹہ)
جس چیز کا مقصودِ اعظم ہی گناہ کا حصول ہو، اسے بیچنے کے بارے میں امام اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ ’’جد الممتار ‘‘ میں لکھتے ہیں:
”ما کان مقصودہ الاعظم تحصیل معصیۃ معاذ اللہ تعالی کان شراؤہ دلیلا واضحا علی ذلک القصد فیکون بیعہ اعانۃ علی المعصیۃ“
ترجمہ: جس شے کا مقصودِ اعظم ہی گناہ کا حصول ہو معاذ اللہ تعالی، تو اس کا خریدنا گناہ کے قصد پر واضح دلیل ہے، تو اس شے کا بیچنا گناہ پر مدد کرنا ہے۔ (جد الممتار، کتاب الحظر والاباحۃ، جلد7، صفحہ76، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
ہینڈ فری اور Airpods صرف گناہ کے کام لیے متعین نہیں اور جو چیز گناہ کے کام کے لیے متعین نہ ہو تو اسے بیچنا گناہ پر مدد نہیں ہوگا، جیساکہ جد الممتار میں ہے:
’’ان الشئی اذا صلح فی حد ذاتہ لان یستعمل فی معصیۃ و فی غیرھا و لم یتعین للمعصیۃ فلم یکن اعانۃ علیھا لاحتِمال ان یستعمل فی غیر المعصیۃ و انما یتعین بقصد القاصدین و الشک لا یؤثر“
ترجمہ: بیشک جب کوئی شئے فی نفسہ معصیت اور غیرِ معصیت میں استعمال ہونے کی صلاحیت رکھتی ہو اور گناہ کے لیے متعین نہ ہو تو اسے بیچنا معصیت پر مدد نہیں ہے کیونکہ احتمال ہے کہ وہ غیرِ معصیت میں استعمال ہو، تعین تو ارادہ کرنے والوں کے ارادے سے ہوتا ہے اور شک کی کوئی تاثیر نہیں۔ (جد الممتار ، جلد7، صفحہ75,76، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)
ہینڈ فری اور Airpods کا غلط استعمال کرنے کا وبال بیچنے والے پر نہیں ہو گا، چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے: ﴿لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى﴾ ترجمہ کنز العرفان: کوئی بوجھ اٹھانے والا آدمی کسی دوسرے آدمی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ (پارہ 08، سورۃ الانعام، آیت 164)
اس کے تحت تفسير ابن عطیہ میں ہے:
’’أي لا تحمل حاملة حمل أخرى، وإنما يؤخذ كل واحد بذنوب نفسه“
ترجمہ: کوئی بھی اٹھانے والی جان کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گی، بلکہ ہر شخص کو خود کے گناہوں کے بدلے میں پکڑا جائے گا۔ (تفسير ابن عطية، جلد 05، صفحہ 205، دار الکتب العلمیہ، بیروت)
الہدایہ شرح بدایہ المبتدی میں ہے:
ومن أجر بيتا ليتخذ فيه بيت نار أو كنيسة أو بيعة أو يباع فيه الخمر بالسواد فلا بأس به۔۔۔۔ لأن الإجارة ترد على منفعة البيت، ولهذا تجب الأجرة بمجرد التسليم، ولا معصية فيه، وإنما المعصية بفعل المستأجر، وهو مختار فيه فقطع نسبته عنه۔ملخصاً
ترجمہ: جس نے گاؤں میں مکان کرایہ پر دیا تاکہ اس میں آتش کدہ یا گِرجا یا کلیسا بنایا جائے یا وہاں شراب فروخت کی جائے تو کوئی حرج نہیں کیونکہ اجارہ کا انعقاد مکان کی منفعت پر ہوا ہے، اسی وجہ سے اجرت محض سونپنے سے ہی لازم ہو جاتی ہے اور اس میں کوئی گناہ نہیں ہے، گناہ تو کرایہ دار کے فعل سے متعلق ہے، اور وہ اس میں صاحب اختیار ہے، تو اس سے گناہ کی نسبت منقطع ہوگئی۔ (الهداية في شرح البداية، جلد 04، صفحہ 378، دار احیاء التراث، بیروت)
مفتی اعظم پاکستان مفتی وقارالدین رضوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: (ویڈیو)کیسٹ صرف معصیت ہی میں نہیں بلکہ نیک کاموں میں بھی استعمال ہوتاہے۔ لہذا کیسٹ منگانے اور بیچنے میں کوئی حرج نہیں، استعمال کرنے والا جس جگہ استعمال کرے گا، وہ اس کاذمہ دار ہوگا۔ (وقارالفتاوی، جلد 1، صفحہ 220، بزم وقارالدین، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: FSD-9532
تاریخ اجراء: 30 ربیع الاول 1447ھ 24ستمبر 2025ء