قرض میں تاخیر پر نقصان لینے کا حکم

 

قرض وقت پر واپس نہ کرنے کی وجہ سے نقصان لینے کا حکم

دارالافتاء اھلسنت عوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میرا سوال یہ ہے کہ تین ماہ پہلے میرے ایک دوست کی والدہ نے مجھ سے پندرہ لاکھ روپے لئے جس کی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ ہم نے کچھ مشینیں اپنے کاروباری معاملات کے لیے ڈسکاؤنٹ پر منگوائی ہیں جس کی وجہ سے پندرہ لاکھ روپے کی اشد ضرورت ہے ، آپ ہمیں دے دیں بطور ضمانت آپ ہمارے فلیٹ کی فائل رکھ لیں جس کی مالیت 45 لاکھ ہے۔ چاہیں تو آپ یہ فلیٹ رکھ لیجئے گا باقی رقم آپ بلڈر کو ادا کر دیجئے گا جس پر میں نے صاف منع کر دیا کہ فلیٹ سے میرا کوئی لینا دینا نہیں ہے ، میں آپ کو رقم دے رہا ہوں، تین ماہ بعد رقم ہی واپس لوں گا اور میں نے کوئی فائل وغیرہ بطور ضمانت بھی نہیں رکھی تو انہوں نے کہا ٹھیک ہے ہم آپ کو تین ماہ بعد اصل رقم کے ساتھ کچھ نہ کچھ نفع بطور مٹھائی آپکو دیں گے ( نفع کی رقم طے نہیں کی گئی کہیں سود کے زمرے میں نہ آئے)

جب ادائیگی کا وقت نزدیک آیا تو میں نے پیغام بھیجا کہ میری رقم وقت پر مل جائے گی؟ جس پر مجھے یقین دہانی کروائی کہ رقم مقررہ وقت پر ادا کر دی جائے گی۔ اس کے بھروسے میں نے ایک پلاٹ کا سودا کیا اور بیعانہ کی مد میں ایک لاکھ روپے دے دئیے پھر جب مقررہ وقت پر میں نے اپنی رقم واپس لینے کے لیے ان سے تقاضہ کیا تو انہوں نے مجھ سے ایک ماہ کا وقت مزید مانگ لیا اور میری رقم ادا نہیں کی جس کی وجہ سے دوسری جگہ دیا گیا ایڈوانس ضائع ہو گیا ۔ میں نے ان سے کہا : میری جو رقم آپ کی وجہ سے ضائع ہوئی ہے یہ آپ ادا کریں تو ان کا کہنا ہے کہ یہ تو سود میں آجائے گا آپ بھی اس سے بچیں اور ہمیں بھی سودی معاملات میں نہ لائیں۔

میرا سوال یہ ہے کہ کیا یہ سارا معاملہ سود ہوگا ؟ کیا میرے مطالبہ کے بغیر جو رقم وہ اپنی خوشی سے دیں گی وہ بھی سود کے زمرے میں آئے گی ؟ کیا میں اضافی رقم کے بجائے کسی اور چیز کی ڈیمانڈ کر سکتا ہوں مثلاً کوئی بائیک یا دیگر اشیاء؟

واضح رہے مجھ سے رقم انہوں نے اپنے پارلر اور جم کی مشینری ٪50 ڈسکاؤنٹ پر خریدنے کے لیے لی تھی تو کیا اس سے ہونے والے نفع میں میرا حصہ جائز ہے ؟ برائے کرم میری رہنمائی فرمائیں۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں قرض دینے والا صرف اپنی قرض کی مد میں دی ہوئی رقم یعنی 15 لاکھ ہی مقروض سے واپس لے سکتا ہے، اس کے علاوہ کسی طرح کی اضافی رقم یا کوئی بھی چیز لینا ناجائز وحرام ہے ۔ نہ ہی بیعانہ کی مد میں ،نہ ہی رقم کے علاوہ کوئی چیز مثلاً بائیک وغیرہ اور نہ ہی مقروض کے کاروبار سے کسی قسم کا نفع لے سکتا ہے کہ یہ سب قرض کی بنیاد پر ملنے والا نفع ہے جو کہ حرام اور سود ہے۔

 رہی بات مقروض کے اپنی خوشی سے اضافی رقم دینے کی تو یہ لینا بھی جائزنہیں کیونکہ یہ اضافی رقم دینا اسی شرط کی بنیاد پر ہے جو مقروض نے قرض لیتے وقت کی تھی کہ ”ہم آپ کو تین ماہ بعد اصل رقم کے ساتھ کچھ نہ کچھ نفع بطور مٹھائی دیں گے“ لہٰذا یہ اضافی رقم قرض سے مشروط ہے اور قرض کی بنیاد پر ملنے والا ہر مشروط نفع حرام و سود ہے۔

نوٹ : یہ بھی یاد رکھیں کہ اس طرح پلاٹ وغیرہ خریدنا یا بیچنا کہ جس میں بیعانہ ضبط ہوجائے ، یہ بھی جائز نہیں اورصریح ظلم ہے اورلینے والے پر بیعانہ کی رقم واپس کرنا بھی لازم ہے۔

سود کی حرمت سے متعلق قرآن پاک میں ہے :

﴿وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواؕ-

ترجمۂ کنز الایمان : اوراللہ نے حلال کیابیع اورحرام کیاسود۔ (سورة البقرۃ ،آیت نمبر275 )

 جو نفع قرض سے مشروط ہو وہ نفع لینا حرام ہوتا ہےجیساکہ حدیث شریف میں ہے:

” كل قرض جر منفعة فهو ربا“

 یعنی قرض کی بنیاد پر جونفع حاصل کیا جائے وہ سودہے۔ ( کنزالعمال،حدیث 15516، جلد6،صفحہ238، بیروت)

 صحیح مسلم میں ہے:

’’ عن جابر رضی اللہ تعالی عنہ قال لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اکل الربا و موکلہ و کاتبہ و شاھدیہ ‘‘

ترجمہ : سیدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سود کھانے والے ، کھلانے والے ، سود لکھنے والے اور سود کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے ۔( الصحیح لمسلم ، کتاب البیوع ، باب الربا، جلد 2 ، صفحہ 27 ، مطبوعہ کراچی )

 در مختار میں ہے:

” کل قرض جر نفعاً حرام“

یعنی نفع کا سبب بننے والا قرض حرام ہے۔(در مختار،جلد7،صفحہ413،دار الفکر،بیروت)

 علامہ ابن عابدین شامی رحمۃا للہ علیہ رد المحتار میں اس عبارت کے تحت لکھتے ہیں:

” اذا کان مشروطاً“

یعنی جبکہ نفع مشروط ہو ۔(رد المحتار،جلد7،صفحہ413،دار الفکر،بیروت)

 سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مولانا امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فتاوی رضویہ میں قرض پر نفع کے متعلق فرماتے ہیں:”قطعی سود اور یقینی حرام و گناہِ کبیرہ و خبیث و مردار ہے ۔ “( فتاوی رضویہ ، جلد 17 ، صفحہ 269 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:IEC-318

تاریخ اجراء:24محرم الحرام 1445ھ/31اگست 2024ء