
دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میں کاغذ کی تھیلیاں سپلائی کرتا ہوں، کئی کسٹمرز کے پاس 3 سے 4سال سے میرے تقریباً دس سے بارہ لاکھ روپے پھنسے ہوئے ہیں۔ جب بھی ان سے تقاضا کرتا ہوں وہ اس قرض کا اقرار تو کرتے ہیں مگر حالات کی تنگی کا رونا روتے ہیں، اب مہنگائی مزید بڑھ جانے کی وجہ سے میں ان رقوم کے ملنے سے تقریباً ناامید ہوچکا ہوں ، پوچھنا یہ ہے کہ کیا مجھے اس رقم کی زکوٰۃ نکالنی ہوگی؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں آپ کی جو رقم کسٹمرز کے پاس ہے، اس رقم پر ہر سال زکوٰۃ لازم ہوتی رہےگی البتہ شریعت مطہرہ نے اس رقم کی زکوٰۃ نکالنے میں یہ آسانی ضرور دی ہے کہ آپ پر اس رقم کی زکوٰۃ فوراً نکالنا لازم نہیں ہے بلکہ اس رقم کی پچھلے تمام سالوں کی زکوٰۃ نکالنا اس وقت لازم ہوگا جب کم از کم اتنی رقم وصول ہوجائے کہ جو نصاب کے پانچویں حصے کی مقدار کو پہنچتی ہواور اگر خدانخواستہ آپ کی یہ رقم بالکل ہی وصول نہ ہوئی یا نصاب کے پانچویں حصے سے کم وصول ہوئی تو آپ پر اس رقم کی زکوٰۃ نکالنا لازم نہیں ہوگا۔
مدیون دَین کا اقرار کرتا ہے اور کسی وجہ سے رقم ادا نہیں کرپارہا تو اس رقم پر گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ لازم ہوگی جیسا کہ درمختار میں ہے:
’’(لو كان الدين على مقر ملىء او)على( معسر... لزم زكاة مامضى)“
یعنی:اگر دَین ایسے شخص پر ہے جو دَین کا اقرار کرتا ہے، چاہے وہ خوشحال ہو یا تنگدست۔۔۔ دائن پر پچھلے سالوں کی زکوٰۃ لازم ہے۔(درمختار مع رد المحتار، جلد3، صفحہ 219، مطبوعہ کوئٹہ، ملتقطا)
دَینِ قوی کی زکوٰۃ کی ادائیگی کے متعلق فتاوی قاضی خان میں ہے:
’’ففى الدين القوى تجب الزكاة اذا حال الحول ويتراخى الاداء الى ان يقبض اربعين درهما، وكلما قبض اربعين درهما يلزمه درهم“
یعنی:دَینِ قوی میں سال گزرنے پر زکوٰۃ لازم ہوگی اور ادائیگیِ زکوٰۃ چالیس درہم وصول ہونے تک مؤخر ہو سکتی ہے ۔ جب جب چالیس دراہم وصول ہوں گے ایک درہم کی ادائیگی بطور زکوٰۃ لازم ہوگی۔(فتاوى قاضى خان، جلد1، صفحہ 223، مطبوعہ بيروت)
فتاوی رضویہ میں امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ دَینِ قوی کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں: ”تجارتی مال کا ثمن یا کرایہ ، مثلاً اُس نے بہ نیتِ تجارت کچھ مال خریدا وہ قرضوں کسی کے ہاتھ بیچا تو یہ دَین جو خریدا پر آیا دَینِ قوی ہے۔“(فتاوی رضویہ،جلد10،صفحہ162،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)
فتاوی رضویہ میں امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ دَینِ قوی کی زکوٰۃ کے متعلق فرماتے ہیں: ”دوقسم سابق میں تجارت دین ہی سال بسال زکوٰۃ واجب ہوتی رہے گی مگر اس کاادا کرنا اُسی وقت لازم ہوگا جبکہ اُس کے قبضہ میں دَینِ قوی سے بقدر خُمس نصاب یامتوسط سے بقدر کامل نصاب آئیگا۔‘‘(فتاوی رضویہ،جلد10،صفحہ162،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)
پھنسی ہوئی رقم بالکل بھی وصول نہ ہو یا نصاب کے خُمس سے کم وصول ہو تو اس کی زکوٰۃ نکالنا لازم نہیں جیسا کہ فتاوی رضویہ میں ہے:’’ عمرو پر زیدکے تین سودرہم شرعی دَینِ قوی تھے، پانچ برس بعد چالیس درہم سے کم وصول ہوئے تو کچھ نہیں، اور چالیس ہُوئے تو صرف ایک درہم دینا آئے گا اگر چہ پانچ برس کی زکوٰۃ واجب ہے کہ سالِ اوّل کی بابت ان چالیس درہم سے ایک درہم دینا آیا یا اب انتالیس رہ گئے کہ خُمس نصاب سے کم ہے لہٰذا باقی برسوں کی بابت ابھی کچھ نہیں ۔۔۔۔ یونہی جب دَینِ قوی سے خُمس نصاب اور متوسط سے پُورا نصاب ہوتا جائے گا اسی حساب سے اتنے کی زکوٰۃ سنین گزشتہ کی زکوٰۃ واجب الادا ہوتی جائے گی، اگر کُل وصول ہوگا کُل کی۔ “(فتاوی رضویہ،جلد10،صفحہ162،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)
جس دَین کی وجہ سے دائن پر گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ لازم ہوتی ہے اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے صدرالشریعہ بدر الطریقہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ بہار شریعت میں فرماتے ہیں:”اگر دَین ایسے پر ہے جو اس کا اقرار کرتا ہے مگر ادا میں دیر کرتا ہے یا نادار ہے یا قاضی کے یہاں اس کے مفلس ہونے کا حکم ہو چکا یا وہ منکر ہے، مگر اُس کے پاس گواہ موجود ہیں تو جب مال ملے گا، سالہائے گزشتہ کی بھی زکاۃ واجب ہے۔“(بہار شریعت،جلد1،صفحه877،مطبوعه مکتبۃ المدینہ کراچی)
دَینِ قوی کی زکوٰۃ کے متعلق بہار شریعت میں ہے:”دَین قوی کی زکاۃ بحالتِ دَین ہی سال بہ سال واجب ہوتی رہے گی، مگر واجب الادا اُس وقت ہے جب پانچواں حصہ نصاب کا وصول ہو جائے، مگر جتنا وصول ہوا اُتنے ہی کی واجب الادا ہے یعنی چالیس درم وصول ہونے سے ایک درم دینا واجب ہوگا اور اسّی ۸۰ وصول ہوئے تو دو،وعلیٰ ہذا القیاس۔“(بہار شریعت،جلد1،صفحه906،مطبوعه مکتبۃ المدینہ کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر:IEC-0274
تاریخ اجراء:26 ذوالحجۃ الحرام 1445ھ/03جولائی 2024ء