ایڈوانس زکوۃ کی مد میں دی ہوئی رقم پر زکوۃ کا حکم

ایڈوانس زکوۃ کی مد میں دی ہوئی رقم پر زکوۃ لازم ہوگی ؟

دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک شخص  نے اپنے مالِ زکوۃ پر نصاب کا سال پورا ہونے سے پہلے ہی ایڈوانس زکوۃ ادا کر دی، جب نصاب کا سال پورا ہوگا، تو جو رقم ایڈوانس زکوۃ کی مد میں دے چکا تھا، کیا اس رقم کی بھی زکوۃ ادا کرے گا؟ کیونکہ وہ رقم ایڈوانس زکوۃ میں دینا اس پر لازم نہیں تھا، اگر وہ ایڈوانس زکوۃ کی مد میں نہ دیتا تو آج وہ رقم اس کے پاس ہوتی، تو اس کی زکوۃ بھی یہ نکالتا۔مثلاً: ایک شخص کے پاس ایک کروڑ کی مالیت کا مالِ زکوۃ موجود ہے، جس کی وہ ہر سال زکوۃ ادا کرتا آرہا ہے اور اس کے نصاب کا سال یکم ذو الحجہ کو مکمل ہوتا ہے۔ اب اس شخص نے اپنے اوپر بننے والی اڑھائی لاکھ زکوۃ یکم ذو الحجہ سے پہلے رمضان شریف میں ہی ادا کر دی، تو جب یکم ذو الحجہ کو اس کا سال پورا ہوگا، اس وقت اس اڑھائی لاکھ کی بھی زکوۃ ادا کرے گا، جو ایڈوانس زکوۃ کی مد میں دے چکا ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

زکوۃ لازم ہونے کے لیے بنیادی چیز یہ ضروری ہے کہ جب نصاب کا سال پورا ہو، اس وقت وہ چیز بندے کی مِلک میں ہو اور جو چیز سال پورا ہونے کے وقت مِلک میں نہ ہو، اس کی زکوۃ لازم نہیں ہوتی، اگرچہ سال کے دوران وہ ملکیت میں تھی اور بغیر کسی تقاضے کے وہ چیز کسی کو دیدی، یا خرچ کر دی یا کسی بھی ذریعے سے اپنی ملکیت سے نکال دی، نیز فقہائے کرام نے صراحت فرمائی ہے کہ ایڈوانس زکوۃ کی مد میں دی ہوئی چیز بھی مِلک سے نکل جاتی ہے، تو جب وہ چیز مِلک میں ہی نہ رہی، تو اس کی زکوٰۃ بھی لازم نہیں ہوگی، لہٰذا پوچھی گئی صورت میں اس شخص نے جب سال پورا ہونے سے پہلے ایڈوانس زکوۃ کی مد میں اڑھائی لاکھ روپے دے دیے، تو اب یہ اڑھائی لاکھ روپے اس شخص کی مِلک سے نکل گئے، یکم ذو الحجہ کو نصاب کا سال پورا ہونے کے وقت وہ اڑھائی لاکھ روپے ملکیت میں نہ ہونے کی وجہ سے ان کی زکوۃ اس شخص پر لازم نہیں ہوگی ۔

اس کی نظیر یہ مسئلہ بھی ہے کہ اگر کوئی شخص نصاب کا سال پورا ہونے سے پہلے اپنی ذاتی رقم کسی کو گفٹ کر دے، تو فقہائے کرام نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ سال پورا ہونے پر اس رقم کی زکوۃ اس شخص پر لازم نہیں ہوگی، بلکہ اس کی زکوۃ ساقط ہوجائے گی اور اس کی وجہ یہی بیان فرمائی کہ یہ رقم اس کی ملکیت میں نہیں ہے ۔بالکل اسی طرح ہمارے مسئلے میں بھی ایڈوانس زکوۃ کی مد میں دی ہوئی رقم ملکیت سے خارج ہوجانے کی وجہ سے سال پورا ہونے پر اس کی زکوۃ لازم نہیں ہوگی۔

کتاب ”المختار“میں ہے:

 ”ولا تجب إلا على الحر المسلم العاقل البالغ إذا ملك نصابا خاليا عن الدين فاضلا عن حوائجه الأصلية ملكا تاما في طرفي الحول“

ترجمہ : زکوۃ آزاد مسلمان عاقل بالغ پر لازم ہوتی ہے، جب وہ ایسے نصاب کا مالک ہو، جو قرض اور حاجتِ اصلیہ سے زائد ہو اور وہ ملکیت سال کے شروع اور آخر دونوں میں پائی جائے ۔

اس کے تحت الاختیار میں ہے:

”أما الملك فلأنها لا تجب في مال لا مالك له“

 ترجمہ: بہرحال مِلک، اس وجہ سے ضروری ہے کہ جو چیز بندے کی مِلک میں ہی نہیں، اس کے میں زکوۃ بھی لازم نہیں ہوتی۔ (الاختیار لتعلیل المختار ، کتاب الزکاۃ ، جلد 1 ، صفحہ 99 ، مطبوعہ بیروت )

ایڈوانس زکوٰۃ کی مد میں دی ہوئی رقم مِلکیت سے خارج ہوجاتی ہے، جیسا کہ مبسوط سرخسی میں ہے:

”ولو أن رجلا له مائتا درهم فتصدق بدرهم منها قبل الحول بيوم ثم تم الحول وفي يده مائتا درهم إلا درهما فلا زكاة عليه؛ لأن المعجل خرج عن ملكه بالوصول إلى كف الفقير فتم الحول ونصابه ناقص وكمال النصاب عند تمام الحول معتبر لإيجاب الزكاة“

 ترجمہ: کسی شخص کے پاس دو سو درہم تھے، اس شخص نے سال پورا ہونے سے ایک دن پہلے ایک درہم صدقہ کر دیا، پھر جب سال پورا ہوا، تو اس کی ملکیت میں 200(یعنی نصاب سے )ایک درہم کم تھا، تو اس شخص پر زکوۃ لازم نہیں ہوگی، کیونکہ جو ایڈوانس زکوۃ دی، فقیر شرعی کے پاس پہنچنے سے وہ دینے والے کی مِلک سے نکل گئی، تو جب سال پورا ہوا، اس وقت نصاب پورا نہیں تھا، جبکہ زکوۃ لازم ہونے کے لیے سال کے آخر میں مکمل نصاب کا ہونا ضروری ہے۔(المبسوط للسرخسی، کتاب نوادر الزکاۃ، جلد 3، صفحہ 24، مطبوعہ بیروت)

اسی طرح محیط برہانی میں ہے:

”ان المعجل بوصوله إلى كف الفقير خرج عن ملكه حقيقة وحكماً“

 ترجمہ: ایڈوانس دی ہوئی زکوۃ فقیر کو جب ملے، تو دینے والے شخص کی ملکیت سے حقیقتاً اور حکماً ہر طرح سے نکل جاتی ہے ۔(المحیط البرھانی، کتاب الزکاۃ، الفصل الثانی، جلد 2، صفحہ 269، مطبوعہ بیروت)

ایڈوانس دی ہوئی زکوۃ دورانِ سال کسی کو گفٹ کرنے کی طرح ملکیت سے خارج ہوجاتی ہے، چنانچہ التجرید للقدوری میں ہے :

”إذا عجل شاة من أربعين فحال الحول وعنده تسع وثلاثون مما عجله، فليس بزكاة، فإن كان أعطاها الفقراء فهو تطوع ۔۔۔ أن ملكه زال عنها قبل الحول فلا يكمل بها النصاب كما لو باعها أو وهبها

ترجمہ: چالیس بکریوں میں سے ایک بکری ایڈوانس زکوۃ کی مد میں دے دی، تو جب سال پورا ہوا، اس وقت اس کے پاس انتالیس بکریاں تھیں، وہ ایڈوانس زکوۃ کی مد میں دی ہوئی بکری کے علاوہ، تو اب اس شخص پر زکوۃ لازم نہیں ہوگی۔ جو فقیر شرعی کو زکوۃ کی مد میں دے چکا تھا، وہ نفلی صدقہ کے طور پر شمار ہوگی۔ (اس کی وجہ یہ ہے کہ )سال پورا ہونے سے پہلے ہی وہ بکری اس شخص کی ملکیت سے خارج ہوگئی ہے، تو نصاب مکمل نہ ہوا، جیسا کہ اگر وہ دورانِ سال اس بکری کو بیچ دیتا یا کسی کو گفٹ کر دیتا ( تو ملکیت سے نکل جانی تھی، اب بھی یہی حکم ہے)۔(التجرید للقدوری، کتاب الزکاۃ، مسئلہ 15، جلد 3، صفحہ 1230، دار السلام، قاھرہ)

شیخ الاسلام و المسلمین امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا: نابالغ بچیوں کو زیور گفٹ کیا، تو اس کی زکوۃ گفٹ کرنے والے شخص پر ہوگی یا ان بچیوں پر؟ اس کے جواب میں آپ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”جو زیور بچوں کو ہبہ کر دیا اس کی زکوۃ نہ اس پر نہ بچّوں پر، اُس پر اس لیے نہیں کہ یہ ملک نہیں، اُن پر اس لیے نہیں کہ وُہ بالغ نہیں۔“(فتاویٰ رضویہ، جلد 10، صفحہ 145، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ بہارِ شریعت میں فرماتے ہیں: ”سال تمام سے پہلے مالِ زکاۃ ہبہ کر دیا تو زکاۃ ساقط ہوگئی۔“(بھارِ شریعت ، حصہ 5 ، جلد 1 ، صفحہ 907 ، مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب :  مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: 2768-   Aqs 

تاریخ اجراء24 شوال المکرم 1446ھ/23 اپریل 2025ء