مزارعت کے تحت حاصل فصل کی تقسیم کیسے ہوگی؟

ایک کی زمین اور باقی کام دوسرے پر ہوں تو مزارعت کا حکم

دارالافتاء اھلسنت عوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ہم دو بندے مل کر باہم عقد مزارعت  کرنا چاہ رہے ہیں،  اس طرح کہ ایک شخص کی طرف سے4 ماہ کے لئے  صرف  زمین ہوگی اور اس پر پیاز کی فصل لگائی جائے گی اوردوسرا شخص یعنی مزارع  تمام اخراجات اٹھائے گا اور کام بھی سارا مزارع ہی کرے گا۔زمین کا مالک صرف زمین دے گا،  نہ وہ کام کرے گا اور نہ ہی اس کے علاوہ کسی طرح کا خرچہ اٹھائے گا ۔اب اس عقد مزارعت میں جو بھی پیداوار ہوگی وہ دونوں کے درمیان نصف نصف تقسیم ہوگی ۔ کیا اس طرح عقد مزارعت کرنا درست ہے ؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

دو افراد کا اس انداز میں عقدمزارعت کرنا کہ ایک فردصرف زمین دے گااور مزارع، سارے کام کرے گا اور ان کاموں پر آنے والے اخراجات بھی مزارع کے ذمہ ہوں گے ،یہ عقد شرعا درست ہے۔

اس کی تفصیل یہ ہے کہ اگرچہ قول ظاہر الروایہ کے مطابق فصل کی کٹائی وغیرہ طے شدہ نفع کے تناسب سے لازم آتے ہیں، لیکن امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کی ایک روایت کے مطابق اگر عاقدین باہم طے کر لیں کہ ایک فرد صرف زمین دے گا اور باقی سب کام اور اُن کے اخراجات مزارع برداشت کرے گا، تو یوں عقد کرنا درست ہے۔ اسی پر کثیر فقہائے احناف نے بسبب  تعامل فتوی دیا ہے اوراسی قول کو اصح قراردیا گیا ہے ۔لہذا پوچھی گئی صورت میں مذکورہ عقد مزارعت کرنا عرف و تعامل کی وجہ سے با لکل جائز ہے ۔

ایک فردصرف زمین دے گا، باقی سارے کام مزارع کے ذمہ ہوں گے  یہ جائز ہے ،چنانچہ مزارعت کے جواز کی مختلف صورتیں بیان کرتے ہوئے صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’ ايك شخص کی زمین اور بیج اور دوسرا شخص اپنے ہل بیل سے جوتے بوئے گا يا   ایک کی فقط زمین باقی سب کچھ دوسرے کا یعنی بیج بھی اسی کے اور ہل بیل بھی اسی کے اور کام بھی یہی کریگايا   مزارع صرف کام کریگا باقی سب کچھ مالک زمین کا ،یہ تینوں صورتیں جائز ہیں۔‘‘(بہار شریعت ،جلد 3،صفحہ 289،مکتبۃ المدینہ کراچی )

امام ابویوسف علیہ الرحمہ کے نزدیک عرف کی وجہ سے تمام کام مزارع پر ڈالنا جائز ہے یہی قول مفتی بہ ہے ،چنانچہ تنویر الابصار والدرالمختارمیں ہے:

’’ (وصح اشتراط العمل) كحصاد ودياس ونسف على العامل (عند الثانی للتعامل وهو الاصح) وعليه الفتوى ملتقى‘‘

یعنی:امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک تمام کاموں مثلاً: کٹائی، دانوں کو بھوسے سے الگ کرنے اور چھاننے کوتعامل کے سبب مزارع پر لازم قرار دینا بھی صحیح اور درست ہے، یہی قول اصح ہے، اسی پر فتوی ہے۔(تنویر الابصار والدرالمختار ،جلد 9،صفحہ 471،دار المعرفہ بیروت)

اس کے تحت خاتم المحققین علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

’’ واذا شرط عليه لزمه للعرف‘‘

یعنی: جب  اس کی شرط رکھ لی جائے تو یہ کام  عرف کے سبب اسی پر لازم ہوں گے۔(رد المحتار  ،جلد 9،صفحہ 471،دار المعرفہ بیروت)

فتاوی عالمگیری میں ہے:’’عن ابی يوسف رحمه اللہ تعالى انه اجاز ‌شرط ‌الحصاد والرفع الى البيدر والدياس والتذرية على المزارع لتعامل الناس وبعض مشائخنا ممن وراء النهر يفتون به ايضاوهو اختيار نصير بن يحيى ومحمد بن سلمة من مشائخ خراسان كذا فی البدائع‘‘ یعنی:حضرت امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ انہوں نے مزارِعین کے تعامل کے سبب کٹائی، کھلیان تک لیجانے اور دانوں کی صفائی وغیرہا ، تمام کاموں کو مزارِع  پر لازم قرار دینے کو تعامل کی بنا پر ”جائز“ ارشاد فرمایا۔ ہمارے ماوراء النہر کے بعض مشائخ نے بھی اِسی پر فتوٰی دیا۔ یہی قول خراسان کے مشائخ مثلاً: نصیر بن یحییٰ اور محمد بن سلمہ رحمۃ اللہ علیہم  کا اختیار کردہ ہے، جیسا کہ ”بدائع الصنائع“ میں ہے۔(فتاوی عالمگیری ، جلد05، صفحہ237،مطبوعہ بیروت)

ہمارےیہاں برصغیر کا عرف بھی یہی ہےکہ مالک زمین صرف زمین دیتا ہے اور بقیہ تمام کام مزارع کے ذمہ ہوتے  ہیں ، چنانچہ امام اہل سنت ، امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

’’ان هاهنا البذر والبقر والعمل كلها من المزارع دون رب الارض‘‘

یعنی:ہمارے یہاں برصغیر میں بھی بیج، بیل اور تمام کام مزارِع کی طرف سے ہوتے ہیں، مالکِ زمین کی طرف سے نہیں۔(جد الممتار، جلد06، صفحہ417، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:IEC-418

تاریخ اجراء:22ربیع الثانی1445ھ/26اکتوبر 2024ء