
دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک شخص مجھ سے قرض لینا چاہتا ہے اور میں اپنا پرافٹ بھی رکھنا چاہتا ہوں لہذاہم نے یہ طریقہ اختیار کیا ہےکہ قرضدار کو 2لاکھ روپے قرض چاہئے تو میں بازار سے اسےدولاکھ کا سونا خرید کر ادھارمیں ایک معین مدت کے لئے 2لاکھ 30ہزار کا بیچ دوں گا ، کیا ہمارا یہ طریقہ اختیار کرنا درست ہے ؟اگر نہیں تو براہ کرم درست طریقہ بھی ارشاد فرمادیں ؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں بیان کردہ طریقہ کار کے مطابق اگرآپ دو لاکھ کا سونا خرید کر اس پر قبضہ کرنے کے بعد قرضدارکو ایک معین مدت کے لئے 2لاکھ 30ہزار میں بیچیں گے تو اس طرح عقد کرنا جائز و درست ہے ،اور اسے عقد مرابحہ کہتے ہیں کہ اس میں بیچنے والا خریدار کو اپنا نفع ظاہر کر کے بیچتا ہے اور عقد مرابحہ ادھار بھی ہوسکتا ہے ۔
لیکن اس میں یہ خیال رکھا جائے کہ سونا خرید کر قبضہ میں لینا ضروری ہے پھر آگے بیچا جائے ورنہ عقد ناجائز ہوجائے گا ۔
مرابحہ کی تعریف بیان کرتے ہوئے صاحب ہدایہ امام ابو الحسن علی بن ابو بکر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’المرابحة نقل ما ملكه بالعقد الاول بالثمن الاول مع زيادة ربح‘‘
یعنی:پہلے عقد میں جتنے ثمن کے بدلے مال کا مالک ہوا ، اس میں نفع کا اضافہ کر کے آگے منتقل کرنا مرابحہ ہے ۔( الهداية ،جلد03،صفحه74،مطبوعہ لاھور)
سونا خریدنے کے بعدآگے بیچنے سے پہلے سونے پر قبضہ کرنا ضروری ہے،بہار شریعت میں ہے:”مبیع اگر منقولات کی قسم سے ہے تو بائع کا اُس پر قبضہ ہونا ضرور ہے،قبل قبضہ کے چیز بیچ دی، بیع ناجائزہے۔ (بہارشریعت،جلد2،صفحہ625، مکتبۃ المدینہ کراچی)
ادھار خریدوفروخت ہو توقیمت ادا کرنےکی مدت طے ہونا بھی ضروری ہے۔ جیساکہ بہار شریعت میں ہے:”بیع میں کبھی ثمن حال ہوتا ہے یعنی فورا ً دینا اور کبھی مؤجل یعنی اُس کی ادا کے لیے کوئی میعاد معین ذکر کردی جائے ، کیونکہ میعاد معین نہ ہوگی تو جھگڑا ہوگا۔“(بہار شریعت،جلد2،صفحہ626،مطبوعه مکتبۃ المدینہ کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر:IEC-296
تاریخ اجراء:12محرم الحرام 1446ھ/19جولائی 2024ء