مِنسا نام کا مطلب اور رکھنے کا حکم

بچی کا نام مِنسا رکھنا

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

مِنسا نام رکھنا کیسا؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

مِنسا(میم کے زیر اور نون کے سکون کے ساتھ) عربی زبان کا لفظ ہے،

باب نَسِیَ یَنسیٰ(سمع یسمع)

سے اسم آلہ کا صیغہ ہے، جس کا معنیٰ ہے "بھول جانے کا آلہ"، اس معنیٰ کے لحاظ سے یہ نام مناسب نہیں ہے۔ بہتر یہ ہے کہ بچی کا نام صحابیات، صالحات رضی اللہ تعالی عنھن کے نام پر رکھیں تاکہ ان کی برکات بھی حاصل ہوں اور حدیث پاک پر عمل بھی ہو کہ حدیث پاک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اچھے نام رکھنے کی ترغیب بھی ارشاد فرمائی ہے۔

المنجد میں ہے"نَسِیَ یَنْسٰی:بھولنا۔" (المنجد، صفحہ 891، مطبوعہ: لاہور)

سنن ابو داؤد میں حضرت سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

أنکم تدعون یوم القیامۃ بأسمائکم و أسماء آبائکم، فأحسنوا أسمائکم

ترجمہ: قیامت کے دن تم اپنے ناموں اور اپنے آباء کےناموں سے پکارے جاؤ گے، اس لئے اپنے نام اچھے رکھا کرو۔ (سنن ابو داؤد، جلد 4، صفحہ 442، حدیث: 4948، مطبوعہ: ہند)

الفردوس بماثور الخطاب میں ہے

تسموا بخياركم

ترجمہ: اپنے اچھوں کے نام پر نام رکھو۔ (الفردوس بماثور الخطاب، جلد 2، صفحہ 58، حدیث: 2328، دار الكتب العلمية، بيروت)

صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں: ”بچہ کا اچھا نام رکھا جائے۔ ہندوستان میں بہت لوگوں کے ایسے نام ہیں، جن کے کچھ معنی نہیں یا اون کے برے معنی ہیں، ایسے ناموں سے احتراز کریں۔ انبیائے کرام علیہم الصلاۃ و السلام کے اسمائے طیبہ اور صحابہ و تابعین و بزرگان دِین کے نام پر نام رکھنا بہتر ہے، امید ہے کہ اون کی برکت بچہ کے شاملِ حال ہو۔“ (بہار شریعت، جلد 3، حصہ 15، صفحہ 356، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد انس رضا عطاری مدنی

فتویٰ نمبر: WAT-4039

تاریخ اجراء: 25 محرم الحرام 1447ھ / 21 جولائی 2025ء